میاں نواز شریف جیسے ہی صحت مند ہوں گے‘
واپسآ جائیں گے: پرویز رشید
مسلم لیگ (ن )کے سینئر رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''نواز شریف جیسے ہی صحتمند ہوں گے‘ واپس آ جائیں گے‘‘ جبکہ نواز شریف کے صحتمند ہونے کے بعد شہباز شریف کی باری آ ئے گی تو نواز شریف ان کی تیمارداری کریں گے؛ حتیٰ کہ تیمارداری کرتے کرتے وہ دوبارہ بیمار ہو جائیں گے اور دونوں ایک دوسرے کی تیمارداری کرتے کرتے کوئی دس پندرہ سال میں صحتمند ہو جائیں گے اور ڈاکٹروں کی اجازت ملنے میں مزید پانچ سال لگ سکتے ہیں ‘کیونکہ دونوں نحیف و نزار اتنے ہو جائیں گے کہ ڈاکٹرز کوئی رسک لینے پر تیار نہیں ہوں گے‘ کہیں دورانِ سفر ہی کوئی معاملہ نہ ہو جائے‘ اس لیے قوم کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ کیونکہ قوم ان دونوں کے ہاتھوں پہلے جتنی پریشان ہو چکی ہے‘ اسی کو غنیمت سمجھے اور اس سے بحال ہونے کی کوشش کے‘ جس میں ایک صدی کا عرصہ لگ سکتا ہے ۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگوکر رہے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری کے پاس جو ورثہ ہے
‘ وہ ان کا کردار ہے: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر اور سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''بلاول بھٹو زرداری کے پاس جو ورثہ ہے‘ وہ ان کا کردار ہے‘‘ جو انہیں وراثت میں ملا ہے‘ بلکہ وہ اپنے موروثی کردار سے بھی آگے نکل جانے کی کوشش کررہے ہیں ‘ جس میں وہ یقینا کامیاب ہوں گے‘ جبکہ جعلی اکائونس کیس اس کی ایک ادنیٰ سی مثال ہوگا‘ جبکہ ان کو اپنے انکلوں سید یوسف رضا گیلانی اور دیگران سے بھی ورثے میں بہت کچھ ملا ہے ‘جس کا مظاہرہ وہ مستقبل میں کرتے رہیں گے اور اسی حساب سے ان کیخلاف بھی انتقامی کارروائیاں کر سکتی ہیں اور والد صاحب کی طرح جیل ان کا بھی دوسرا گھر ہوگی ‘جبکہ عارضی گھروں کی بجائے یہ مستقل گھر انہیں پسند بھی بہت آئے گا اور یقین ہے کہ یہ وراثت اگلی نسلوں تک بھی اسی طرح رواں دواں رہے گی اور حکومت بھی مستقل طور پر مصروف رہے گی۔ آپ اگلے روز وزیراعظم عمران خان کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
آئین کی بالا دستی کے لیے حکومت کو چاہیے کہ
اپوزیشن کے ساتھ مکالمہ کرے :سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''آئین کی بالا دستی کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن کے ساتھ مکالمہ کرے‘‘ اور اگر اپوزیشن کے ساتھ مکالمہ نہیں کر سکتی‘ کیونکہ اپوزیشن کے ساتھ اس کے تعلقات کافی کشیدہ ہیں‘ تو حکومت یہ مکالمہ خاکسار کے ساتھ بھی کر سکتی ہے‘ کیونکہ ہم لوگ بھی ہمیشہ سے اپوزیشن ہی چلے آ رہے ہیں کہ اقتدارکی تو کسی نے ہمیں ہوا تک نہیں لگنے دی‘جبکہ میں روزانہ بیان دے دے کر پھاوا ہو گیا ہوں۔آپ اگلے روز میڈیا کواپنا روزانہ کا بیان دے رہے تھے۔
درستی
سینئر شاعر اور کالم نویس سعد اللہ شاہ نے گزشتہ روز اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے؎
واسطہ یوں رہا سرابوں سے
آنکھ کھلی نہیں عذابوں سے
اس شعر کادوسرا مصرعہ خارج از وزن ہو گیا ہے‘ جو میری نظر میں اس طرح ہونا چاہیے تھاع
آنکھ کھلتی نہیں عذابوں سے
ظاہر ہے کہ یہ ٹائپ کی غلطی ہے‘ کیونکہ خود موصوف ایک معروف اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔
ایک اور صاحب نے اپنے کالم کے آخر میں یہ شعر اس طرح درج کیا ہے؎
سینے چاک ہیں اور خونیں قبائیں
لیکن انصاف کی پُکار ہے وہ باز نہ آئے
خیر سے اس شعر کے دونوں مصرعے ہی بے وزن اور ناقابلِ اصلاح ہیں ۔اس لیے درستی سے معذرت۔
اور اب آخر میں اسحق وردگ کی غزل:
چاک پر بے بسی بناتا ہوں
یعنی میں زندگی بناتا ہوں
باندھ دیتا ہوں دھوپ ساحل پر
کشتیاں موم کی بناتا ہوں
نیند سے اور کچھ نہیں بنتا
اس لیے خواب ہی بناتا ہوں
سانس ہوتا ہے زندگی کے لیے
اس سے میں خود کشی بناتا ہوں
یہ ضرورت ہے شہر والوں کی
اس لیے سادگی بناتا ہوں
میری تکمیل ہو نہ جائے کہیں
روز خود میں کمی بناتا ہوں
حُسن مصرع اٹھانے آتا ہے
عشق سے شاعری بناتا ہوں
اس میں رستہ کہاں سے بنتا ہے
میں تو دیوار ہی بناتا ہوں
ان اندھیروں سے دشمنی ہے مجھے
اس لیے روشنی بناتا ہوں
آج کا مطلع
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں