"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور اس ہفتے کی غزل

بلوچستان حکومت‘ چیئرمین سینیٹ‘ گورنر 
کے پی کی پیشکش ہوئی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''مجھے بلوچستان کی حکومت‘ چیئرمین سینیٹ اور گورنر کے پی کی پیشکش ہوئی‘‘ لیکن میں نے کہا کہ اس شرط پر قبول کرتا ہوں کہ تینوں عہدے مجھے اور صرف مجھے دیئے جائیں‘ کیونکہ جتنی جدوجہد میں نے کی ہے اُس حساب سے تو یہ تینوں عہدے مجھے ملنے چاہئیں جبکہ بعد میں پتا چلا کہ وہ محض مذاق کر رہے تھے اور اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے کہ حکومت کسی معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے اور میرے مارچ اور دھرنے کو بھی مذاق ہی سمجھ رہی تھی؛ چنانچہ میں نے بھی وہ مذاق ختم کر دیا ہے اور پلان سی کی طرف لوٹ آیا ہوں اور اگر یہ بھی ناکام رہا تو پلان ڈی کے بارے سوچنا پڑے گا‘ تاہم میں گھبرانے والا نہیں ہوں اور پلان زیڈ تک جاؤں گا جبکہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ مجھے لینے کے دینے ہی پڑ جائیں ا ور انہی چار پیسوں پر گزارہ کرنا پڑے جو بڑی مشکل سے آج تک بچائے ہیں حالانکہ دنیا اُمید پر قائم ہے۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسمٰعیل خان میں مارچ کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کی صحت بحالی میںچند ماہ لگ سکتے ہیں: ڈاکٹر عدنان
نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی صحت یابی میں چند ماہ لگ سکتے ہیں‘‘ اور یہ سو پچاس مہینے بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی پسند کے کھانوں سے باز نہیں آ رہے اور انہی کو پرہیزی کھانے سمجھتے ہیں‘ اس لیے ظاہر ہے کہ شہباز شریف کا قیام بھی اسی حساب سے طول کھینچ جائے گا کیونکہ کم از کم میری زندگی میں ان کے ٹھیک ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے اور پاکستان میں وہ جیسا چاہتے تھے میں ان کی صحت کے بارے رپورٹ کرتا رہا ہوں تو ظاہر ہے کہ ان کی صحت یابی کے حوالے سے بھی جیسی وہ چاہیں گے رپورٹ کرتا رہوں گابلکہ خود میرے بیمار پڑ جانے کے خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس پر طرئہ یہ کہ اُنہیں غصہ بھی بہت آنے لگا ہے اور کل ہی انہوں نے اپنے ساتھ آنے والے باورچی کی معمولی غلطی پر ٹھیک ٹھاک دھلائی کر دی کہ سیخ کباب میں نمک ذرا کم رہ گیا تھا۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومتیں فیصلے اکیلے نہیں کرتیں‘ اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی ہے: خواجہ آصف
ن لیگی رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''حکومتیں فیصلے اکیلے نہیں کرتیں‘ اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی ہے‘‘ جبکہ ہمارے وقت میں تو سارے فیصلے صرف وہی کیا کرتی تھی کیونکہ ہم اپنے کام میں اس قدر مگن ہوا کرتے تھے کہ فیصلے کرنے کا وقت ہی نہیں بچتا تھا جبکہ ہمارا کام بھی دُہرا تھا یعنی خدمت اکٹھی کرنی اور پھر اسے باہر بھیجنا اور یہ دونوں کام بیک وقت ہی کرنا پڑے تھے کیونکہ خدمت ہی اتنی تھی کہ سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی اور اب اس کی واپسی کابھی کوئی خطرہ نہیں ہے کہ دونوں بھائی اب مکمل طور پر محفوظ ہیں جبکہ ان دونوں نے تو اپنا کردار ادا کر لیا ہے‘ باقی کام مریم نواز اور حمزہ شہباز وغیرہ سنبھالیں گے اور جہاں تک عدم واپسی کی بنا پر توہین عدالت کا معاملہ ہے تو جب دونوں بھائی واپس ہی نہیں آئیں گے تو توہین عدالت کس پر لگے گی۔ اس لیے ساری آزمائش ختم ہو چکی ہے اور ہر طرف چین اور آرام کی بانسری بج رہی ہے‘ کیونکہ ان خطرات نے بھی کہہ رکھا ہے کہ اچھا وقت آنے والا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں گفتگو کر رہے تھے۔
اگلا سال الیکشن کا ہوگا‘ کارکن تیاری کریں: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''اگلا سال الیکشن کا ہوگا‘ کارکن تیاری کریں‘‘ کیونکہ سب کچھ کارکنوں نے ہی کرنا ہے‘ ہم تو سب اندر ہوں گے جبکہ ہمارے قائدین پہلے ہی سرخرو ہو کر لندن پہنچ چکے ہیں اور جہاں سے واپس آنے کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ آ بیل مجھے مار‘ جبکہ بیل کافی بڑا بھی ہے اور پلک جھپکتے ہی میں سینگوں پر اٹھا لیتا ہے اور ہل وغیرہ جوتنے کی بجائے یہ بیل صرف سینگ مارنے یا سینگوں پر اٹھانے ہی کا کام کرتا ہے اور فوراً اس کام پر تیار بھی ہو جاتا ہے گویا کسی اشارے ہی کا منتظر ہو جبکہ ایک بیل ایسا بھی ہے‘ جبکہ ہمارے دور میں کیسا بھیگی بلّی بنا رہتا تھا‘ حیرت ہے کہ بلّی سے بیل بننے میں اس نے کوئی دیر ہی نہیں لگائی ۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
جو ترے ساتھ مرا نام نہیں آ سکتا
یوں بھی مجھ پر ترا الزام نہیں آ سکتا
میرے تو کام ہیں سب رُکے ہوئے تیرے بغیر
اور‘ میں تیرے کسی کام نہیں آ سکتا
ایک میں ہوں کہ بجھا بیٹھا ہوں آنکھیں اپنی
ایک تُو ہے کہ لب ِ بام نہیں آ سکتا
تُو گرفتار ہی کرنے پہ نہیں ہے مجھے خوش
یہ نہیں ہے کہ تہہ دام نہیں آ سکتا
سر بسر لتھڑا ہوا ہوں کسی تنہائی میں
اس طرح سے کہ سرِعام نہیں آ سکتا
یہ مرض اور ہے‘ چارہ کوئی اب اور ہی کر
اِس دوا سے مجھے آرام نہیں آ سکتا
جو کیا ہے سو بھگتنا بھی پڑے گا اے دل
کہ سزا کی جگہ انعام نہیں آ سکتا
منتظر ہی کوئی گھر میں نہ ہو جس کا یکسر
صبح کا بھولا ہوا شام نہیں آ سکتا
دین و مذہب کے نقیبوں کا جو عالم ہے ظفرؔ
کبھی اس ملک میں اسلام نہیں آ سکتا
آج کا مطلع:
جہاں پہ تھا ہی نہیں پھر وہاں سے غائب ہے
مرا ستارہ ترے آسماں سے غائب ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں