کسی کو ترقی میں رکاوٹ نہیں ڈالنے دیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''کسی کو ترقی میں رکاوٹ نہیں ڈالنے دیں گے‘‘ کیونکہ اس کام کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں اور ہم اپنے کام میں کسی کی طرف سے مداخلت برداشت نہیں کرتے، ویسے بھی اگر ترقی ہونی ہی نہیں ہے تو اس میں رکاوٹ کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اپوزیشن اپنا کام کرے اور ہمیں اپنا کام کرنے دے اگرچہ دونوں کے کام میں کوئی فرق نہیں ہے، اور اس طرح دونوں میں ایک طرح کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو نہایت خوش آئند بھی ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو دونوں اپنے اپنے مقصد میں جلد کامیاب ہو جائیں گے اس لیے فی الحال کابینہ میں کسی فوری رد و بدل کی ضرورت نہیں ہے اور جو لوگ میری تبدیلی کے خواب دیکھا کرتے ہیں، انہوں نے بھی وہی کچھ کرنا ہے جو میں کر رہا ہوں یا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ جو کام نہ ہو رہا ہو اس سے یہ تو پتا چل ہی جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس کی کوشش ضرور ہو رہی ہے۔ آپ اگلے روز میانوالی میں میگاپراجیکٹس کی تقریب سنگِ بنیاد سے خطاب کر رہے تھے۔
حکمرانوں کی خاموشی بتا رہی ہے کہ وہ
کشمیر کا سودا کر چکے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کی خاموشی بتا رہی ہے کہ وہ کشمیر کا سودا کر چکے ہیں‘‘ اسی لیے میں کبھی خاموش نہیں ہوتا اور ہر روز بلاناغہ بیان داغ دیتا ہوں کہ کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ میں کسی چیز کا سودا کر چکا ہوں، حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ میرے پاس ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کا سودا کیا جا سکے، البتہ میں اس بات کا سودا ضرور کر سکتا ہوں کہ کچھ روز تقریر کا ناغہ کروں بشرطیکہ حکومت کی جانب سے کسی معقول پیشکش کا تکلف کیا جائے، اگرچہ اسے اس سودے کی بھی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میری دھواں دھار تقریروں کا اس پر کوئی برائے نام بھی اثر نہیں ہو رہا حالانکہ ایسا کرنے سے میری صحت پر خوشگوار اثر ضرور پڑ سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں اپنے کشمیر مارچ سے خطاب کر رہے تھے۔
احتساب کے خوف سے آفیسرز بھی ٹھیک کام نہیں کر رہے: سعید غنی
وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ''احتساب کے خوف سے آفیسرز بھی ٹھیک کام نہیں کر رہے‘‘ کیونکہ نہ سرکاری زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں نہ ہی اہلِ سیاست کے کاموں میں کوئی تعاون ہو رہا ہے، جس سے وہ تقریباً فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں جو لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے اسمبلیوں تک پہنچے ہیں اور ان کی ساری سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آ رہی ہے‘ کیونکہ آفیسرز کے بغیر کوئی بھی کام سیدھا نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ خود یہ آفیسرز بھی مسلسل نقصان میں جا رہے ہیں کیونکہ اہلِ سیاست کی طرح ہر کام میں ان کا بھی معقول حصہ ہوتا ہے، اس لیے سارے کام ٹھپ ہیں اور سرمایہ کسی طرح سے بھی حرکت نہیں کر رہا، اس لیے بہتر ہو گا کہ یا تو آفیسرز کو کام کرنے دے یا حکومتی معززین کو خواہ مخوا ہ پریشان کرنا ترک کر دے۔ آپ اگلے روز کراچی میں سی پی این ای کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
بھائی صاحب نے آج اپنے کالم میں غالب کا شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
ضبط نے گریہ کے اک شور اٹھایا غالبؔ
جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
اس کا دوسرا مصرعہ غلط ہے اور بے وزن ہو گیا ہے کیونکہ اصل مصرعہ اس طرح سے ہے ع
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
اس کے علاوہ عزیزی سعد اللہ شاہ نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے؎
اپنے ہونے کا پتا دے
کوئی شیشہ کہیں گرا دے
اس کا پہلا مصرعہ غلط اور خارج از وزن ہے جو اس طرح ہونا چاہئے تھا ع
اپنے ہونے کا کچھ پتہ دے
یہ ٹائپ کی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔
بیان ممکن نہیں ہے
جو سر میں بھَر گئے ہیں/ انگلیوں میں سرسراتے/ آنکھ میں کانٹے اگاتے ہیں/ انہیں لفظوں سے لکھ دیکھو/ بیاں ممکن نہیں ہے/ اس کا/ جو تم جھیلتے ہو/ کہ پہلی آنکھ کھل جانے سے/ لمبی تان کر سونے کا عرصہ/ بوجھ ہوتا ہے/ سوکندھے ٹوٹتے/ ٹخنے تڑختے ہیں/ دُکھن ہوتی ہے/ خالی پن میں گدلی گونج چکراتی ہے/ برتن ٹوٹتے بجتے ہیں/ بجتے، ٹوٹتے، رہتے ہیں/ آنگن میں، رسوئی میں/ کوئی صورت بدلتی دھند سی ہے/ گھاس کے تختوں پہ/ کیچڑ سے بھری راہوں میں/ چکنے فرش پر/ دن کی سفیدی میں/ محبت سے لدے دل میں/ سنہرے خواب کے لہراتے اندر میں/ تمہاری ہی طرح کے لوگ/ بالوں سے پکڑ کر کھینچتے ہیں/ راستوں پر/ بے حیائی سے/ بہت تذلیل کرتے ہیں/ کوئی ملبوس ہو/ کوئی قرینہ ہو/ اُدھڑ جاتا ہے آخر کو/ کناروں پر ہے خاموشی/ چھدی تاریکیاں ہیں/ کیا کرن کوئی تمہاری ہے/ کوئی آنسو، کوئی تارہ/ تمہیں رستے دکھائے گا؟/ کوئی سورج/ تمہارے نام پر چمکے گا آخر کو؟/ حقیقت تھی سوالِ اولیں/ اور بس/ اور اس کے بعد میں کیا ہے/ فقط خفت ہے، ننگی بے حیائی ہے/ ڈھٹائی ہے/ جیے جائو ندامت میں/ مگر لکھتے رہو/ دیوار سے، سر مار کر/ کہ عظمت خبط ہے/ سب واہمہ ہے/ یہ لہو کی رقص کرتی گنگناہٹ بھی/ کہ دانائی بھی اک بکواس ہے/ آواز بھی، چپ بھی/ یہاں ہونا، نہ ہونا بھی/ وہی قصہ پرانا ہے/ تو پھر لکھتے رہو/ بیگار میں/ بیکار میں لکھتے رہو/ کیا فرق پڑتا ہے
آج کا مقطع:
پانی سا بہتا پھرتا تھا میں پانی کے ساتھ ظفر
اور کسی منہ زور لہر نے باہر مجھے اُچھال دیا