عمران خان
کیا دیکھتا ہوں کہ اپوزیشن کے سارے نام نہاد رہنما سو سو سال کے لئے اندر ہو گئے ہیں‘ کیونکہ اُن کی سزائیں ایک کے ختم ہونے کے بعد دوسری شروع ہونی تھی۔ نواز شریف‘ شہبازشریف وغیرہ نے بھی مستقل طور پر لندن میں بسیرا کر لیا ہے اور بقول شاعر'' گلیاں سُونی ہو گئی ہیں‘ جن میں مرزا یار گھوم پھر رہا ہے‘‘۔ اپوزیشن کے جو زعماء اندر ہونے سے بچے ہیں وہ میری ولولہ انگیز قیادت سے متاثر ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں۔ اُدھر مودی صاحب کا فون آیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے بات چیت پر تیار ہیں سارے اسلامی و غیر اسلامی ملکوں کے سربراہان سے مبارکبادیں آ رہی ہیں۔ میں اس وقت شیخ رشید کی تقریب شادی میں شریک ہوں ۔ بڑی گہما گہمی ہے اچانک کسی نے پٹاختہ چلایا ہے کہ میری آنکھ کھل گئی۔
نواز شریف
کیا دیکھتا ہوں کہ میں معمول کی پانچ کلو میٹر کی دوڑ میں مصروف ہوں کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ عمران خان نے مولانا کے دباؤ سے تنگ آ کر استعفیٰ دے دیا ہے اور مولانا نے پیغام بھیجا ہے کہ میں واپس آ کر ملک کی باگ ڈور سنبھال لوں ‘جبکہ وہ خود کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہونا زیادہ پسند کریں گے ‘کیونکہ اس میں کرنا کچھ بھی نہیں پڑتا اور سارے ملکوں کا سیر سپاٹا مُفت میں ہو جاتا ہے۔ میں نے فی الحال فوری طور پر اپنی جگہ مریم نواز کو قائم مقام وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھانے کی ہدیات کر دی ہے اور اپنے ڈاکٹر عدنان کے لائف اچیومنٹ ایوارڈ کا بھی اعلان کر دیا ہے‘ چونکہ اب شہباز شریف کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں‘ اس لئے اسے بھی واپسی کا کہہ دیا ہے۔ اسحق ڈار‘ حسین نواز‘ حسن نواز‘ شہباز شریف کے صاحبزادے اور داماد کے بھی خوشی سے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ اتنے میں حسین نواز نے اتنے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ میری آنکھ کھل گئی۔
بلاول بھٹو زرداری
کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارے خلاف سارے گواہ قضائے الٰہی سے فوت ہو گئے ہیں اور حکومت نے معافی مانگ لی ہے۔ انکل خورشید شاہ مقدمات کی واپسی کی اطلاع سن کر بوجہ شادی مرگ‘ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ والد صاحب جو جیل سے نکلنے سے مسلسل انکار کر رہے تھے‘ اُنہیں بڑی مشکل سے منایا ہے اور انہوں نے باہر آتے ہی جملہ وعدہ معاف گواہوں کوکیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔ سارے اثاثے‘ جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس جو بحق سرکار ضبط کر لئے گئے تھے‘ مع سود بحال کر دیئے گئے ہیں‘ جبکہ دیگر جملہ معززین بھی باعزت طور پر جیلوں سے رہا کر دیئے گئے ہیں‘ کیونکہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم کے مستعفی ہوتے ہی سب کیلئے معافی کا اعلان کر دیا ہے اور ملک میں جشن کا سا سماں ہے۔ فراغت کے باعث والد صاحب میری شادی کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں اور دُلہن کے انتخاب کیلئے سوئمبر کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ اتنے میں والد صاحب نے کھانے کے بعد اتنے زور کا ڈکار لیا ہے کہ میری آنکھ کھل گئی۔
مولانا فضل الرحمن
کیا دیکھتا ہوں کہ وزیراعظم استعفیٰ لے کر خود حاضر ہوئے ہیں اور تاخیر کی معافی مانگ رہے ہیں۔ میں نے دیر آید درست آید کہتے ہوئے اُنہیں معاف کردیا ہے۔ مجھے مولانا ڈیزل کہنے سے بھی توبہ کر لی ہے۔ دھرنے اور مارچ کے ضمن میں خرچے کے طور پر ان سے دس کروڑ کا مطالبہ بھی کیا ہے‘ جو انہوں نے بخوشی منظور کر لیا ہے۔ میری کامیابی پر ہمسایہ ملک میں بھی خشوی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور میں نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر مطالبہ کشمیر سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے جو کہ میرے دھرنے اور مارچ کی وجہ سے یہ مسئلہ پہلے ہی کافی نظر انداز ہو چکا تھا میرے اقتدار سنبھالنے کی خوشی میں ملک بھر میں حلوے کی دیگیں چڑھائی جا رہی ہیں۔ میں نے مارچ اور دھرنے میں شریک طلبہ کو دنیا بھر کے ملکوں میں سفیر مقرر کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔رہبر کمیٹی کے جملہ ارکان بھی وزارت سنبھالنے میں مصروف ہیں کہ اسی شورو غل میں میری آنکھ کھل گئی۔
نعیم ضرار ؔکی تازہ شاعری
تُو ہی تُو ہے جہاں کہیں ہوں میں
تو نہیں تو کہیں نہیں ہوں میں
کر رہا ہوں تلاش تیرے بعد
اپنے اندر بھی اب نہیں ہوں میں
تیرا اثبات ہے مرا ہونا
تو یہاں ہے تو پھر یہیں ہوں میں
اپنے اندر ہوں میں نہ باہر ہوں
پھر بھی شاید یہیں کہیں ہوں میں
جس گھڑی میں جدا ہوئے تھے تم
ایک عرصہ ہوا وہیں ہوں میں
تم ہو مجھ میں تو تم میں میں‘ گویا
تم نہ اب تم ہو‘ میں نہیں ہوں میں
تم یہاں تھے تو میں بھی ہوتا تھا
لوگ کہتے ہیں اب نہیں ہوں میں
محبتوں میں اک ایسا مقام بھی دیکھا
کہ فاصلہ تو زیادہ تھا‘ دُور کچھ نہیں تھا
کتنے آزاد تھے گھروں میں ہم
اب سبھی قید ہیں مکانوں میں
جن زمانوں پہ رشک آتا ہے
لوگ اچھے تھے اُن زمانوں میں
آج کا مقطع
اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں‘ ظفرؔ
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا