اگر مطالبہ نہ مانا گیا تو گھوڑا بھی ہے اور میدان بھی:فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اگر مطالبہ نہ مانا گیا تو گھوڑا بھی ہے اور میدان بھی‘‘ اگرچہ گھوڑا کافی تھک چکا اور خاصی حد تک بے لگام بھی ہے اور اسے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ بھاگنا کس طرف ہے‘ جبکہ ہنہنا ہنہنا کر بھی اس کی مت ماری جا چکی اور کئی دنوں سے اسے کھرکھرا بھی کسی نے نہیں مارا‘تاہم وہ دولتّی تو جھاڑ ہی سکتا ہے اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ گھوڑا دولتّی نہیں جھاڑ سکتا‘ کیونکہ اگر گدھا ایسا کر سکتا ہے تو گھوڑے کو ویسے بھی اُس پر فوقیت حاصل ہے ‘جبکہ دونوں کی خوراک بھی ایک جیسی ہے اور جہاں تک میدان کا تعلق ہے‘ تو وہ بھی اب کوئی خاص کھلا نہیں اور جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بلاول اور احسن اقبال کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
انفیکشن کی وجہ سے ابا کا علاج گھر میں کیا جا رہا ہے: حسین نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مفرور صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ ''انفیکشن کی وجہ سے ابا کا علاج گھر میں کیا جا رہا ہے‘‘ اس لیے دوسرے بیمار قیدیوں کو بھی چاہیے کہ اگر انفیکشن سے بچنا ہے تو اپنا علاج گھر پر ہی کرائیں‘ کیونکہ ہسپتال تو گویا انفیکشن کا گھر ہوتا ہے‘ جبکہ ابا ویسے تو آتے ہی صحت یاب ہو گئے تھے اور کھانا بھی حسب ِمعمول کھانے لگے تھے اور اب انہیں صرف انفیکشن کا خطرہ ہے‘ ورنہ وہ ہر روز ماشاء اللہ دوڑ لگانے کے بعد ورزش بھی کرتے ہیں ؛ البتہ انکل شہباز شریف کی طبیعت خاصی ناساز ہے‘ جبکہ اصولی طور پر انہیں بھی لندن پہنچتے ہی صحت یاب ہو جانا چاہیے تھا‘ تاہم ان کیلئے انفیکشن کا خطرہ بہر حال موجود ہے‘ تاہم دونوں کی حالت ابھی سفر کرنے کے قابل ہرگز نہیں ہے‘ جس کیلئے ڈاکٹری سرٹیفکیٹ حاصل کر کے رکھ لیے گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نئے انتخابات پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی: اے پی سی
اے پی سی نے قرار دیا ہے کہ ''نئے انتخابات پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی‘‘ کیونکہ حکومت اگر مقدمات پر کوئی مفاہمت کرنے کو تیار نہیں ‘ تو ہماری طرف سے بھی کسی قسم کی مفاہمت سے معذرت ہے؛ اگرچہ نئے انتخابات میں بھی ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آنا‘ کیونکہ مولاناصاحب نے مارچ اور دھرنے کا پنگا لے کر ہماری سیاست کا بسترہی گول کر دیا ہے اور ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہماری عقل پر پردہ کیوں پڑ گیا تھا کہ خواہ مخواہ مولانا صاحب کو اپنا لیڈر بھی تسلیم کر لیا اور اپنی کٹیا بھی ڈبو لی اور‘ اب یہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر ہے‘ جسے نگلے بنتی ہے‘ نہ اگلے؛ اگرچہ محاورہ کچھ اور طرح سے ہے ‘لیکن مولاناصاحب نے ہمارے ساتھ جو کر چھوڑی ہے ‘ ہمارے سارے محاورے ہی الٹ ہو گئے ہیں، اور اب‘ ہمیں صرف یہ محاورہ ٹھیک سے یاد رہ گیا ہے کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ان باتوں کا اظہار اے پی سی کی طرف سے اگلے روز اسلام آباد میں کیا جا رہا تھا۔
درستی
مجاہد بریلوی صاحب نے گزشتہ روز اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے: ؎
یاں اہلِ جنوں یک بہ دیگر دست و گریباں
واں اہلِ ہوس تیغ بہ کف در پہ جاں ہے
اس کے دونوں مصرعے غلط درج ہو گئے ہیں‘ ان کی اصل صورت اس طرح سے ہے ؎
یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں اہلِ ہوس تیغ بہ کف درپئے جاں ہے
آخر میں سلیم کوثر کی ''کولاژ‘‘ کے تازہ شمارہ سے غزل:
سمجھنے ہی میں دشواری تو ہے ناں
مگر باتوں میں تہہ داری تو ہے ناں
کہاں رکھو گے یادوں کا خزانہ
درونِ خانہ الماری تو ہے ناں
یہ سنگِ رہ گزارِ عاشقی ہے
بہت ہلکا سہی بھاری تو ہے ناں
محبت امتحان لینے لگی ہے
تری جانب سے تیاری تو ہے ناں
اگر رستے مقفل ہو گئے ہیں
تو پھر خوابوں کی رہداری تو ہے ناں
ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ رہنا
تجھے لا حق یہ بیماری تو ہے ناں
سبھی بازار مہنگے ہو گئے ہیں
مگر جشنِ خریداری تو ہے ناں
وہ جا کر بھی نہیں جاتا ہے دل سے
دریں اثناء وفاداری تو ہے ناں
ان آنکھوں میں چراغِ شام کی لَو
خُمارِ صبح بیداری تو ہے ناں
یہ قفلِ عشق کھل جائے گا اک دن
مری مشقِ سخن جاری تو ہے ناں
سلیمؔ امن و اماں اپنی جگہ پر
فضا میں خوف سا طاری تو ہے ناں
آج کا مطلع
خود بھی موجود ہیں امکاں بھی کسی اور کا ہے
کیا مسافر ہیں کہ ساماں بھی کسی اور کا ہے