"ZIC" (space) message & send to 7575

آپ کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا؟ اور علیؔ ارمان کی غزل

مولانا فضل الرحمن
چوہدری پرویز الٰہی کو بار بار فون کرتا ہوں کہ وہ جو وعدے آپ کر کے گئے تھے اور جو تسلیاں دی تھیں ‘ ان کا اب تک کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکلا؟ پہلے تو وہ فون ہی نہیں اٹھاتے تھے‘ لیکن میں نے بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ آخر ایک دن میرے ہتھے چڑھ ہی گئے اور پولا سا منہ بنا کر کہنے لگے : کون سے وعدے؟ تو میں نے ان کا ایک ایک وعدہ یاد دلایا‘ جس پر انہوں نے کہا کہ میں اب بھی کوشش کر رہا ہوں‘ جبکہ وزیراعظم نے استعفیٰ کے لیے کچھ وقت مانگا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اُدھر پی پی اور نواز لیگ نے شہ دے رکھی ہے ‘ جبکہ مجھے شہ مات ہونے والی ہے ‘ کیونکہ طلبا تو اپنا سامانِ خورو نوش ساتھ لے کر آئے تھے اور اپنا کھانا اور چائے وغیرہ بھی خود ہی بناتے تھے تو ذرا بتائیں وہ پیسے آپ نے کہاں کہاں خرچ کیے ہیں؟ حالانکہ یہ ارب اور کھرب پتی پارٹیاں ہیں اور چند کروڑ روپوں کے لیے مری جا رہی ہیں۔ ہفتے کے چھ دن تو ایسے ہی موضوعات پر گزر گئے اور اپنے کیے پر پچھتانے کو صرف ایک دن ملا ہے‘ جبکہ اس میں بھی اکرم درانی اپنا رونا لے کر بیٹھ گئے ہیں۔
میاں شہباز شریف
مظاہرین کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس بلڈنگ میں میں بھی موجود ہوں‘ ورنہ وہ مجھ پر بھی اپنی توجہ مبذول کرتے ؛البتہ دوسرے دن انہیں پتا چلا تو میرے خلاف بھی آ کر نعرے لگاتے رہے اور یہ سب ڈیوڈ روز کی سازش کا نتیجہ تھا؛ حالانکہ اگر میں نے اُن کے ساتھ اتنی بڑی رعایت برتی تھی اور کیس نہیں کیا تو وہ بھی ذرا خیر سگالی کا ثبوت دیتے‘ یہ ان کا قصور نہیں‘ انگریز ہوتے ہی ایسے ہیں۔ اس کے بعد پورا ایک دن برخوردار سلمان شہباز کے پاکستان میں اپنی جائیداد کی ضبطی پر سرٹیفکیٹ بنوانے میں لگ گیا کہ وہ ہوائی سفر کے قابل ہی نہیں رہے‘ جبکہ اپنے لیے بھی سرٹیفکیٹ کی خاطر کسی مناسب بیماری کا انتخاب کرنے میں پورا ایک دن صرف ہو گیا۔ اس کے بعد پورا ایک دن فون پر مریم نواز کو سمجھانے ‘ بجھانے میں لگ گیا کہ اگر وہ بھی یہاں آ نکلیں‘ تو وہ وہاں پارٹی کون چلائے گا؟
عثمان بزدار
مجھے اپنی تو کچھ زیادہ فکر نہیں تھی؛ البتہ کل سے مائنس ون فارمولے نے پریشان کر رکھا ہے‘ بلکہ پارٹی کے دو تین حضرات نے تو حلف اٹھانے کے لیے شیروانیاں بھی تیار کروا لی ہیں‘ جن پر وہ روزانہ استری بھی کرواتے ہیں اور اسی شش و پنج میں ہوں کہ یہ حضرات کون کون ہو سکتے ہیں ؟جبکہ اسی افواہ پر بیورو کریسی نے پھر وہی پرانا راستہ اختیار کر لیا ہے اور میری کسی بات پر کان ہی نہیں دھرتے۔ کچھ حضرات پر میرا پختہ شبہ بھی ہے ‘لیکن ان کا نام نہیں لے رہا کہ اگر وہ پہلے وزارت ِاعلیٰ کے امیدوار نہ بھی ہوں تو میرے کہنے سے کہیں بن ہی نہ جائیں‘ بلکہ خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا ہر رکن اپنا رنگ بدلتا ہوا سا نظر آتا ہے‘ خدا خیر ہی کرے؛ اگرچہ آثار اس کے برعکس ہی دکھائی دیتے ہیں‘ دو پورے دن تو تعویذ گنڈوں میں گزر گئے‘ جبکہ وزیراعظم یہ کورس الگ سے کر رہے ہیں‘ لازمی طور پر یہ ان ہائوس تبدیلی ہی کا کوئی چکر معلوم ہوتا ہے۔ رات کو خواب بھی الٹے سیدھے ہی نظر آنے لگے ہیں‘ جو سیدھے کم ہوتے ہیں اور الٹے زیادہ۔
مراد علی شاہ
دو تین دن تو میں اندازے لگاتا رہا ہوں کہ آزاد گروپ میں شامل ہونے والے کون کون سے حضرات ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ کوئی بھی ایسا نہیں ‘جسے جی بھر کے عوامی خدمت کا موقعہ نہ دیا ہو اور انہوں نے دولت کے انبار نہ اکٹھے کر لیے ہوں۔ بزرگوارم قائم علی شاہ کو مشورے کے لیے اگلے دن بلایا تو ان کی اپنی گھگی بندھی ہوئی تھی‘ رونے دھونے سے پہلے تو وہ میرے سامنے بیٹھ کر خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہے اور باقاعدہ خراٹے بھی لینا شروع کر دیئے؛ چنانچہ انہیں ان کے حال پر چھوڑا اور اگلا دن حکومت کی فکر مندی میں گزار دیا کہ کم بخت نہ پکڑتی ہے‘ نہ جان چھوڑتی ہے اور نہ واپسی کا سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور پورا ایک دن ان جائیدادوں پر حسرت بھری نظر ڈالتا رہا ہوں کہ آخر ان کا کیا بنے گا؟ حتیٰ کہ میرا کیا بنے گا؟ گورنر راج کا خطرہ بھی موجود ہے اور عمران اسماعیل صاحب کے تیور بھی کچھ بدلے بدلے سے نظر آ رہے ہیں‘ خدا خیر ہی کرے۔
اور‘ اب آخر میں لندن سے علی ؔارمان کی یہ غزل:
جاوداں میں اپنے عشق جاودانی سے ہوا
کام میرا ایک نگاہِ ناگہانی سے ہوا
عشق وہ صحرائے امکان و تحیر ہے جہاں
مختلف ہر کوئی اپنی رائیگانی سے ہوا
حُجرۂ ادراک کی دیوار آئینہ ہوئی
اور میرا سامنا اک اپنے ثانی سے ہوا
کائناتِ کُل نکل آئی غمِ تجرید سے
لفظ کا جب رابطہ میرے معانی سے ہوا
خار وخس کے لوگ رہتے تھے میرے چاروں طرف
مہرباں میں شہر پر شعلہ بیانی سے ہوا
چل دکھائوں رونقِ شہرِ غلط فہمی تجھے
وہ جو پیدا اک ذرا سی بد گمانی سے ہوا
جب دیا دھوکا ہر ایک معبودِ ارضی نے مجھے
تب تعارف اک خدائے آسمانی سے ہوا
آگ تھا جب تک مجھ میں تھی ہوائوں کی لپک
ہو گیا مٹی تو مجھ کو عشق پانی سے ہوا
خوش رہے کیسے وہ زندانِ عناصر میں علیؔ
جو مکاں میں قید شوقِ لامکانی سے ہوا
آج کا مطلع
کسی امید‘ کسی انتظار میں گم ہے
یہ وہ سفر ہے کہ جو رہگزار میں گم ہے

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں