"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ثناء اللہ ظہیرؔ کی شاعری

جنوبی پنجاب کے فنڈز کسی دوسری جگہ استعمال نہیں ہوں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''جنوبی پنجاب کے فنڈز کسی دوسری جگہ استعمال نہیں ہوں گے‘‘ بلکہ دوسری سب جگہوں کے فنڈز بھی جنوبی پنجاب میں استعمال ہوں گے‘ کیونکہ یہ خود وزیراعلیٰ کا علاقہ ہے اور یہ ہماری درخشندہ روایات کے بھی عین مطابق ہے‘ جیسا کہ تقریباً سارے پنجاب کے فنڈز میاں شہباز شریف نے لاہور میں لگا دیئے تھے ‘جس سے ان کا نام خوب روشن ہوا‘ جبکہ خاکسار کو اپنا نام روشن کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے؛ اگرچہ میرا نام پہلے ہی کافی روشن ہے اور جس کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی ایک دنیا کو نظر بھی آ رہی ہے‘ جو میری گورننس سے ظاہر ہے جو نہ گڈ ہے‘ نہ خراب‘ کیونکہ گڈ گورننس تو ویسے ہی نایاب ہے اور خراب گورننس کے بارے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں‘ جو سب کو صاف نظر آ رہی ہے‘ کیونکہ ہم سختی کے قائل نہیں ہیں‘ اس لیے ہماری سرفروش پولیس نے وکلا کے ہجوم کو نہیں روکا اور ہسپتال کے جو مریض اس دھاوے کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں‘ ان کی قسمت ہی میں یہی لکھا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
چھ ماہ میں انتخابات‘ نئی اسمبلی بن سکتی ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''چھ ماہ میں انتخابات‘ نئی اسمبلی بن سکتی ہے‘‘ اگرچہ نئی اسمبلی کے لیے میرے منتخب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ کیونکہ مارچ اور دھرنے والی بے وقت کی راگنی الاپنے سے میری سیاست کا بسترا ویسے ہی گول ہو گیا ہے اور مجھے اسی بچے ہوئے چند کروڑ پر گزارہ کرنا پڑے گا‘ جو میں نے بڑی حکمت عملی سے بچائے ہیں اور جو ہاتھ میرے ساتھ چوہدری پرویز الٰہی نے کیا ہے ‘وہ مجھے عمر بھر یاد رہے گا اور حیرت ہے کہ دوسروں کے ساتھ ہاتھ کرنے والوں کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا‘ جبکہ موصوف نے وعدہ کیا تھا کہ دسمبر میں مائنس ون یقینا ہو جائے گا ‘جبکہ دسمبر سرپٹ بھاگتا ہوا ختم ہو رہا ہے اور مائنس ون کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آ رہا اور ان کا اشارہ غالباً میری جانب تھا کہ میں ہی مائنس ون ہو جائوں گا اور یہ بات انہوں نے گھما پھرا کر کی تھی‘ اور میں سمجھا کہ وزیر اعظم کے مائنس ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ٹانک میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کمزور خارجہ پالیسی سے پاکستان آج تنہا کھڑا ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان آج تنہا کھڑا ہے‘‘ حتیٰ کہ اب میں بھی سوچ رہا ہوں کہ مجھے کہاں کھڑا ہونا ہے‘ کیونکہ بیٹھے بیٹھے ویسے ہی تنگ آ گیا ہوں‘ کیونکہ بیان دینے کیلئے کھڑا ہونے کی ویسے ہی ضرورت نہیں‘ بلکہ یہ تو لیٹے لیٹے بھی دیا جا سکتا ہے‘ جبکہ اسی طرح کئی بیان میں نے نیند کی حالت میں ہی دیئے ہیں اور اٹھ کر باقاعدہ زور لگا کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ کیا یہ واقعی میرا بیان ہے؟ اسی لیے میں ہمیشہ عزیزی لیاقت بلوچ کے ساتھ کھڑا نظر آئوں گا؛ اگرچہ وہ تنگ ہے کہ میں نے انہیں کس کام پر لگا دیا ہے؟ حالانکہ میرے بغیر وہ بھی تنہا کھڑا اچھا نہیں لگے گا؛ اگرچہ ہم وقفے وقفے سے بیٹھ کر دم لے لیتے ہیں ‘تاہم بیٹھتے بھی اکٹھے ہی ہیں ‘تا کہ ہماری یکجہتی متاثر نہ ہو؛ آپ اگلے روز کشمیر مشاورتی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی کا جمہوریت پریقین ہے‘ عوامی طاقت 
سے اقتدار میں آئے گی: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کا جمہوریت پر یقین ہے‘ عوامی طاقت سے اقتدار میں آئے گی‘‘ کیونکہ یہ جمہوریت ہی کا اعجاز تھا کہ ہماری باریاں مقرر تھیں اور دونوں پارٹیاں اپنی اپنی باری پر اقتدار میں آ کر عوام پر سکتہ طاری کر دیا کرتی تھیں اور میرا تو کلینک بھی خوب چل نکلا تھا اور سب اہل خانہ اس میں اپنی اپنی ڈیوٹیاں دے رہے تھے اور جب سے یہ بند ہوا ہے‘ مریض سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں‘ اور ظاہر ہے کہ یہ کلینک اقتدار کے زمانے میں ہی کھلا رہ سکتا ہے اور جس کا آئندہ بھی کھلنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں ‘کیونکہ نواز لیگ کا ہم سے بھی بُرا حال ہے اور سب کو خواب میں بھی جیل ہی کے نظر آتی ہیں‘ جبکہ پی ٹی آئی کے ساتھ یاری کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب فیصل آباد سے ثناء اللہ ظہیرؔ کی شاعری:
خود ہی کچھ کم نہیں میں اپنی تباہی کے لیے
دوستوں سے مجھے امداد بھی آ جاتی ہے
رونا ہوتا ہے کسی اور حوالے سے مجھے
اور ایسے میں تری یاد بھی آ جاتی ہے
یہ رائگانی بھی کیا خوب ہے‘ زمیں کی طرح
پڑے پڑے ہی مرے دام بڑھتے جاتے ہیں
بُلا رہے ہیں مجھے اُس طرف بھی لوگ ظہیرؔ
اور‘ اِس طرف بھی مرے کام بڑھتے جاتے ہیں
یہ ہم جو ہیں فقط اک منزلہ مکاں والے
ہمیں بھی دھوپ ملے گی‘ ہوا ملے گی کیا
آپس کی نوک جھونک نہ بچوں کی چھیڑ چھاڑ
کچھ روز سے یہ گھر نہیں‘ دفتر وغیرہ ہے
............
تلوار تھام کر بھی نکلنا پڑا مجھے
غاصب سمجھ رہے تھے کہ شاعر وغیرہ ہے
یہ وہ گلی ہے جس سے ہم ایسا گناہ گار
گزرے تو لوگ سمجھیں کہ زائر وغیرہ ہے
منزل سمجھ کے راہ میں جس کی پڑا ہوں میں
وہ بھی سمجھ رہا ہے مسافر وغیرہ ہے
آج کا مقطع
جو حلقہ زن ہوں زمانوں سے اپنے گرد‘ ظفرؔ
یہ میں نہیں ہوں‘ مرا چارسُو دھڑکتا ہے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں