وکیلوں کی جانب سے ڈاکٹروں،ہسپتال
عملہ پر حملے کا جواز موجود تھا: رضا ربانی
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینئر وکیل رضا ربانی نے کہا ہے کہ ''وکیلوں کی جانب سے ڈاکٹروں‘ ہسپتال عملہ پر حملے کا جواز موجود تھا‘‘ کیونکہ اگر یہ حملہ نہ ہوتا تو مرنے والے مریضوں کے لواحقین کو دس دس لاکھ روپے کیسے ملتے‘ جس سے ان کے بہت سے مسائل حل ہوں گے اور اس سے ان کے گھر والوں کو مزید مریضوں کا علاج کروانے کی سہولت میسر آ جائے گی‘ کیونکہ ہر گھر میں دو چار مریض تو ویسے بھی موجود ہوتے ہیں‘ اس کے علاوہ ٹوٹی ہوئی مشینری کی جگہ ہسپتال کی نئی نکور مشینری میسر ہو جائے گی‘ جبکہ پولیس وین کے جلنے سے پولیس کو نئی وین خریدنے کے پیسے مل جائیں گے۔ کیونکہ پولیس کی ساری گاڑیاں ویسے ہی کھٹارا ہو چکی ہیں، یہ الگ بات کہ نئی وین مل جانے کے بعد بھی وہ رہے گی ویسے کی ویسی۔ اور جن لوگوں کی کاروں کی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے انہیں بھی معقول معاوضہ مل جائے گا ۔آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اسلام آباد مارچ میں بتائیں گے کہ مسئلہ کشمیر کو
حکومت نے کیوں پسِ پُشت ڈالا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''اسلام آباد مارچ میں بتائیں گے کہ مسئلہ کشمیر کو حکومت نے کیوں پسِ پُشت ڈالا‘‘ کیونکہ ابھی ہمیں خود بھی معلوم نہیں ہے اور جس کا ہم کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش میں ہیں کہ آیا حکومت نے یہ مسئلہ پسِ پشت ڈالا بھی ہے یا نہیں‘ کیونکہ ہم تصدیق کے بغیر کبھی بات نہیں کرتے۔ اگرچہ ہماری تصدیق کا نتیجہ بھی عام طور پر غلط یا مشکوک ہی نکلتا ہے‘ اس لیے سب سے پہلے ہمیں اس بات کا سراغ لگانا ہوگا کہ ہماری تصدیق کا نتیجہ غلط یا مشکوک کیوں نکلتا ہے‘ اس لیے اس سے پہلے ہم نے تمام تصدیق طلب معاملات کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیا ہے کیونکہ دیر میں ہی خیر ہوتی ہے اور جلد بازی شیطان کا کام ہوتا ہے‘ جبکہ شیطان پر ہم ہمیشہ ہی لعنت بھیجتے رہتے ہیں اور شیطانی کاموں سے دور رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
تحریکِ انصاف کی حکومت عملی طور پر ناکام ہو گئی ہے: عزیز الرحمن چن
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر حاجی عزیز الرحمن چن نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف کی حکومت عملی طور پر ناکام ہو گئی ہے‘‘ کیونکہ پہلے وہ زبانی طور پر ناکام تھی اور اب عملی طور پر بھی ہو گئی ہے اور خواہ مخواہ اتنا وقت ضائع کیا ہے‘کیونکہ ہم براہ راست عملی طور پر ناکام ہوئے تھے‘ زبانی طور پر ناکام ہونے کا ہمارے ہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے کہ ہم نے ویسے بھی عمل ہی پر کاربند رہنا سیکھا ہے اور عملی کارناموں کی ایسی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جس کی نیب بھی گواہ ہے جبکہ وہ بھی عملی کاموں ہی کی وجہ سے ہماری طرح متوجہ رہتی ہے‘ اسی لیے پارٹی میں عملی طور پر پلی بارگین کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور زرداری صاحب کی ضمانت بھی اسی لیے کروائی گئی ہے‘ کیونکہ پہلے تو وہ درخواست ضمانت دائر کرنے ہی پر آمادہ نہ تھے‘ لیکن جب ہم نے انہیں کہا کہ پانی سر سے گزرتا جا رہا ہے تو انہوں نے ہامی بھر لی ‘ ہمارا اصول بھی یہی ہے کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے ۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ہمارے بھائی صاحب نے آج اپنے کالم میں اقبالؔ کا شعر اس طرح نقل کیا ہے؎
بتوں سے تجھ کو امیدیں اور خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
پہلے مصرعہ میں لفظ ''اور‘‘ نہیں ہے‘ جس سے مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے: صحیح مصرعہ اس طرح سے ہے ع
بُتوں سے تجھ کو امیدیں‘ خدا سے نومیدی
چونکہ دوسرے مصرع میں ''اور‘‘ تھا اس لیے شاید انہوں نے ضروری سمجھا کہ پہلے میں بھی ''اور‘‘ ہونا چاہیے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
بھولا سبق پڑھاؤں اُس کو
کیا کیا یاد دلائوں اُس کو
کائنات کو دیکھوں گا کیا
آگے سے تو ہٹائوں اُس کو
شخص نہیں‘ وہ چیز ہے کوئی
رکھّوں اُسے ‘ اُٹھائوں اُس کو
باغ‘ بیاباں‘ صحرا‘ دریا
ساری سیر کرائوں اُس کو
سویا ہوا ہے میرے اندر
شور مچائوں‘ جگائوں اُس کو
ہوتا نہیں ہے جہاں جہاں وہ
وہیں وہیں سے بلائوں اُس کو
جینے سے تنگ آیا ہوا ہوں
زہر سمجھ کر کھائوں اُس کو
رونا چاہتا ہوں جی بھر کے
آج کہیں سے لائوں اُس کو
وہ ایک ایسا گیت ہے ‘ ظفرؔ
بے آواز ہی گائوں اُس کو
آج کا مطلع:
جیسے کتاب میں سوکھے پھول کی ایک مہک رہ جاتی ہے
ختم بھی ہو جائے جو محبت ، کوئی کسک رہ جاتی ہے