ریکارڈ قرض لے کر بھی بھیک مانگنے کا عمل جاری ہے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''ریکارڈ قرض لے کر بھی بھیک مانگنے کا عمل جاری ہے‘ ‘جبکہ ہم نے تو ملک کو اس حالت میں چھوڑا تھا کہ کوئی بھیک مانگنے کے بھی قابل نہ رہے۔ حیرت ہے کہ حکومت نے ہمارے لیے ہوئے قرض کا ایک قابل ِذکر حصہ واپس کیسے کر دیا اور ہم چونکہ تیز رفتار ترقی کر رہے تھے‘ اس لیے بڑے اور میگا پراجیکٹس کو اس ترقی میں خاص طور پر شامل کیا گیا تھا‘ اس لیے جہاں پچاس خرچ کرنا ہوتا تھا‘ وہاں سو روپے خرچ کئے گئے اور اس طرح ملک کے ساتھ ساتھ ہماری بھی تیز رفتار ترقی ہوتی گئی۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نئے پاکستان میں صحتمند ماحول فراہم کریںگے: فیاض الحسن چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''نئے پاکستان میں صحتمند ماحول فراہم کریں گے‘‘اور یہ نئی نسل کیلئے ہو گا‘ جبکہ پرانی نسل کیلئے اس طرح کا تکلف ضروری نہیں‘ کیونکہ وہ اپنی مدت قریباً پوری کر چکی ہے اور صحت وغیرہ‘ ان کے مسائل میں شامل ہی نہیں‘ جبکہ وہ صحت مند ہوں یا غیر صحتمند‘ ان کیلئے ایک ہی بات ہے‘ بلکہ اُن کیلئے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ جلدی جلدی فارغ ہوں اور بڑھاپے کے اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کریں؛ چنانچہ گھوڑا جب بوڑھا ہو جائے تو اسے آزادکر دیا جاتا ہے‘ تو اسی طرح بزرگ افراد کیلئے بھی یہ سہولت موجود ہونی چاہیے اور ہماری حکومت کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ‘کیونکہ ہمیں جو اقتدار ملا ہے‘ وہ ان بزرگوں کی دُعاؤں کا ہی نتیجہ ہے‘ اس لیے ان کی اس سے بڑی خدمت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ آپ اگلے روز لاہور میں انسدادِ پولیو مہم کا افتتاح کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی مارچ میں فیصلہ کن مارچ کرے گی: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی مارچ میں فیصلہ کُن مارچ کرے گی‘‘ اور اگر ہمارے معززین نے اس وقت تک پلی بار گینگ نہ کی تو یوں سمجھیے کہ ہمارا اپنا مارچ ہو جائے گا‘ کیونکہ اگر زرداری صاحب‘ مراد علی شاہ‘ بلاول بھٹو زرداری‘ آغا سراج اور قائم علی شاہ و دیگران دولت اور اثاثوں کو اسی طرح چمٹ کر بیٹھے رہے تو سب کے سب ہمیشہ کیلئے سرکاری مہمان ہو جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کا فیصلہ کن مارچ ہی ہو؛حالانکہ ان حضرات کو جان لینا چاہیے کہ روپیہ پیسہ ہاتھ کی میل ہے اور یہ ہاتھ دوبارہ بھی اسی طرح میلے ہو سکتے ہیں‘ جیسا کہ زرداری صاحب نے بلاول کے آئندہ وزیراعظم بننے کی امید ظاہر کی ہے؛ اگرچہ خود اپنے صوبہ اور خصوصاً اندرون سندھ میں ہماری حالت پانی سے بھی پتلی ہو چکی ہے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
درستی
بھائی صاحب نے اپنے کالم میں جو دو شعر نقل کیے ہیں‘ ان میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ پہلا شعر اس طرح سے ہے: ؎
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ سے ہی نہ ٹپکے وہ لہو کیا ہے
صحیح شعر اس طرح سے ہے : ؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے
اور دوسرا شعر اس طرح درج کیا گیا: ؎
یہی شیخِ عرب ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذر و دِلق اویس و چادرِ زہرا
پہلے مصرعہ میں ''شیخِ عرب‘‘ کی بجائے ''شیخ حرم‘‘ ہے۔
تیسرا شعر صاحب ِ موصوف نے درست درج کیا ہے‘ جس کا کریڈٹ انہیں بہرحال دینا چاہیے۔
اور اب آخر میں رخشندہ ؔنوید کی ایک پنجابی نظم:
ہجراں دے آثار
ربّا! توں ایہہ دل کیہ بنایا
جَد میں چاہواں نہ رووے
ایہہ روندا اے
جد میں چاہواں ہوش کرے
ایہہ ہجراں والیاں رُتاّں
دے وچ سوندا اے
ربّا! توں ایہہ دل کیہ بنایا
جے ایہہ اکھّاں والا ہوندا
بوہے لگیا تالا ہوندا
مُڑھکا بھاویں پالا ہوندا
پیر ہوا دے پار وی ہوندے
سجے ہوئے دربار وی ہوندے
ہجراں دے آثار وی ہوندے
سجن بیلی یار وی ہوندے
تیرے گل وچ ہار وی ہوندے
ربّا! توں ایہہ دل کیہ بنایا
منگے اوہ جیہڑا کول وی ناہیں
گونگے کول اک بول وی ناہیں
کیہڑی ککھ چوں جمیا اے دل
زہر پیالہ پینے رکھیا
کاہنوں دل مرے سینے رکھیا
ربّا! توں ایہہ دل کی بنایا
آج کا مطلع
فرضی بھی نہیں اور خیالی بھی نہیں ہے
وہ شکل کوئی بھولنے والی بھی نہیں ہے