حکومتی کارکردگی سے مزید بحران میں پھنس جائیں گے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''حکومتی کارکردگی سے ہم مزید سیاسی گرداب میں پھنس جائیں گے‘‘ حالانکہ پہلا گرداب ہی ہمارے لیے کافی تھا جس میں پھنسے ہوئے تھے اور اگر حکومتی کارکردگی اسی طرح جاری رہی تو ہماری سیاست کا تو بسترگول ہو جائے گا، صرف گرداب باقی رہ جائے گا جس میں ڈبکیاں کھاتے رہیں گے اور یہ وہی گرداب ہے جس میں ہم نے عوام کو چھوڑا تھا جس میں وہ اب تک غوطے کھا رہے ہیں، تاہم اسے بھی غنیمت سمجھیں کہ کھانے کو کچھ تو مل رہا ہے، وہ غوطے ہی سہی جبکہ ہمارے عوام قناعت پسند ہیں اور اُن کا پیٹ ان غوطوں ہی سے بھر جاتا ہے کیونکہ اُن کا پیٹ ہمارے پیٹ جیسا نہیں ۔ آپ اگلے روز اسمبلی سیکرٹریٹ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پرویز مشرف کے فیصلے پر معاملہ اللہ پر چھوڑا ہے: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے فیصلے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے‘‘ اور وہ عوام جن کے ووٹ کو عزت دلاتے دلاتے میں یہاں تک پہنچ گیا ہوں وہ اس کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور جو سلوک مشرف نے میرے ساتھ کیا تھا اسے سراسر فراموش کر دیا ہے، اس سے زیادہ احسان فراموشی اور کیا ہو سکتی ہے اور یہ حکومت بھی جو ان کے خلاف مقدمے کی پیروی کر رہی تھی اب یوٹرن لے کر ان کی حمایت کر رہی ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کر رہے تھے۔
وزیراعظم کا ایک پاکستان کا نعرہ کہاں ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''قوم پوچھتی ہے کہ وزیراعظم کا ایک پاکستان کا نعرہ کہاں گیا‘‘ اور قوم نے یہ بات میرے ذریعے پوچھی ہے کیونکہ خود وہ اپنے معمولاتِ زندگی میں مصروف رہتی ہے جبکہ خاکسار کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے ماسوائے حکومت کے خلاف بیان دینے کے؛ چنانچہ ان مصروفیات سے وقت نکالتے ہوئے میں حکومت سے پوچھ رہا ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں کسان بورڈ کے عہدیداران سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
کچھ نہیں ہے کہیں
نہیں، کچھ نہیں ہے کہیں
کوئی میں ہوں نہ تُو
اب نہ آزار ہے، آرزو بھی نہیں
خاکِ امروز سے
شہرِ نو روز تک
بس دھواں ہے دھواں
جس میں آنکھیں سلگتی ہیں، تکتی نہیں
دُھول اُڑتی ہے ہر سُو
یہاں سے وہاں تک...
مگر... کوئی بارش سی تھی
ان دلوں میں کبھی
کوئی مہکار تھی...
کہ آنکھوں کی تہ میں اترتی ہوئی نیند تھی
اور خوابِ تمنّا کی کروٹ سے
ہلچل تھی...
بستر کی شکنوں میں تھی...
روشنی تھی کہیں
جس میں رستہ دکھائی بھی دیتا تھا
چلتا بھی تھا
کوئی دالان تھا
پھول مہکے ہوئے، رنگ بہکے ہوئے تھے کبھی
مہرباں رُخ سے جھڑتے ہوئے پھول
قدموں میں گرتے ہوئے۔۔
ہر طرف دل میں گرہیں لگاتی
ہوا چل رہی تھی
اور مِٹی پکڑتی ہے
پاتال کی سمت کھینچے چلی جا رہی ہے...
آرزو کے ہر اک لفظ پر
اور موجود و رفتہ کے رُخ پر
غبارِ نفی بن کے چھاتی چلی جا رہی ہے
سفر کیا ہوا
یہ دماغ اب کسے؟
اب تو ہم کو پہنچنا ہے اس حد تلک
جس کی حد ہی نہیں
اس مکانِ ابد تک
جو کِس کا نہیں
جو کسی کا نہیں!؟
اور طے یہ ہوا
کچھ نہیں، کچھ نہیں ہے مرا
میرے اطراف میں
خواب کو دیکھ لیتا ہوں
اب خواب میں...
آج کا مطلع:
سکوت ہی وہاں اظہار کے برابر ہے
کہ راستہ جہاں دیوار کے برابر ہے