نواز شریف نے الزامات کے باوجود خود کو سپریم کورٹ
کو خط لکھ کر احتساب کے لیے پیش کیا: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے الزامات کے باوجود خود کو سپریم کورٹ کو خط لکھ کر احتساب کے لیے پیش کیا‘‘ اور اس کا مزہ بھی چکھ لیا‘ جبکہ حسین نواز نے الحمد للہ کہہ کر لٹیا ہی ڈبو دی‘ بلکہ ایک اور خط بھی تھا‘ جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وہ تھا قطری شہزادے کا خط‘ جس سے ظاہر ہوا کہ نہ تو خود کسی کو غلط لکھنا چاہیے اور نہ ہی کسی سے خط لکھوانا چاہیے‘ جبکہ یہاں تو یہ عالم تھا کہ ؎
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
چنانچہ اس دن سے نواز شریف نے کانوں کو ہاتھ لگا لیا ہے کہ نہ کسی کو خط لکھیں گے اور نہ اپنے نام کسی سے کوئی خط لکھوائیں گے ‘بلکہ اپنا رائیٹنگ پیڈ اور قلم بھی کہیں اِدھر اُدھر کر دیا ہے؛ حتیٰ کہ لوگوں کو بھی منع کر دیا ہے کہ مرتے مر جائیں‘ کسی کو خط لکھنے کی غلطی نہ کریں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
ایف آئی اے اور دیگر اداروں سے کہا گیا‘ لیکن انہوں
نے کچھ نہ کیا تو گھٹیا کیس بنا دیا گیا: رانا ثنا اللہء
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ایف آئی اے اور دیگر اداروںسے کہا گیا ‘لیکن انہوں نے کچھ نہ کیا تو گھٹیا کیس بنا دیا گیا‘‘ حالانکہ بڑھیا اور اچھے کیس بھی بے شمار بن سکتے تھے‘ لیکن کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ حکومت پرلے درجے کی نا اہل اور نالائق ہے‘ جبکہ کئی اچھے اچھے کیسوں کی نشاندہی میرے دوست پولیس افسر کے ذریعے بھی ہو سکتی تھی‘ جسے گرفتار کیا گیا تھا‘ بلکہ میرے اور میرے عزیز و اقارب کے اثاثوں کا بھی حساب کتاب کیا جا سکتا تھا اور وہ مقتول لوگ جن کے قتل کا مجھ پر الزام تھا؛ حالانکہ یہ تو محض ایک بہانہ تھا‘ کیونکہ وہ صرف اور صرف قضائے الٰہی سے فوت ہوئے تھے اور ان کی زندگی اتنی ہی لکھی ہوئی تھی اور وہ کسی اور وجہ سے بھی مر سکتے تھے؛ اگرچہ آدمی اسی طرح اور اسی کے ہاتھوں مرتا ہے‘ جس کے بارے تقدیر میں لکھ دیا گیا ہوتا ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
جھیل میں اُترا چاند
یہ شاہدہ عروج خان کا مجموعۂ کلام ہے۔ انتساب ''اپنے پاپا محمد سلیم خان‘ اپنے شہزادے محمد رافع صدیقی اور ان سب کیلئے جن سے یہ شاعری مہکتی ہے‘ جو میری ہر خوشی کا حاصل ہیں‘ زندگی میں شامل ہیں‘‘۔ کتاب کے چھ دیباچے ہیں اور ساتواں مصنفہ کے قلم سے پیش لفظ ہے۔ ابتدا میں شاعرہ نے اپنا یہ شعر درج کیا ہے ؎
عزت مرے خدا نے عطا کی ہے وہ مجھے
جتنا بھی کروں شکر‘ وہ ہو نہیں سکتا
جس کے دونوں مصرعے الگ الگ بحر میں ہیں۔ میرا خیال ہے شاعرہ نے یہ تجربہ کیا ہے؛ اگرچہ اس کا اظہار کتاب میں موجود اور کسی شعر سے نہیں ہوتا‘ ہو سکتا ہے‘ اسے شاعرہ نے کسی اگلے مجموعے کیلئے اٹھا رکھا ہو۔ کتاب سمارٹ ہے اور شاعرہ خوش شکل اور کتاب کا جواز اور تقاضے پورے کرنے کیلئے یہ دونوں چیزیں کافی ہونی چاہئیں۔
درستی
بھائی صاحب نے اپنے کالم میں جو اشعار درج کیے ہیں‘ وہ اس طرح سے کیے ہیں‘پہلا شعر ہے:؎
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تُو کھیتی تُو باراں بھی تُو حاصل بھی تُو
اس کے دوسرے مصرع میں کھیتی کے بعد ''بھی‘‘ آئے گا‘ تو اس کا وزن پورا ہوگا۔ دوسرا شعر ہے:؎
کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد
ہر کہ گیرد مختصر گیرد
وزن پورا کرنے کی خاطر اسے اس طرح لکھتا ہوں ع
ہر کہ گیرد چہ مختصر گیرد
تیسرا شعر ہے ؎
ٹھوکریں کھاتا نہ پھروں شہر شہر
ایک ہی شہر میں ایک ہی در پر رکھا
دونوں مصرعے بے وزن ہیں۔شعرشاید اس طرح سے ہے :؎
تاکہ میں ٹھوکریں کھاتا نہ پھروں شہر بہ شہر
ایک ہی شہر میں اور ایک ہی در پر رکھا
چوتھا شعر ہے :؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمُود
سنگِ و حشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
دوسرے مصرع کا پہلا لفظ ''کہ‘‘ ہے‘ جس سے وزن پورا ہوتا ہے۔
مزید درستی
برادرم رانا محبوب اختر نے لکھا ہے کہ ''حیدریم‘‘ جمع نہیں ‘اس کا مطلب ہے کہ'' میں حیدر کا بندہ‘‘ لیکن اگر اسے حیدریم پڑھا جائے ‘ تو دوسری 'ے‘ پر شد ڈالنے ہی سے اس کا وزن پورا ہوگا۔ اس لیے حیدری کے بعد ''ام‘‘ لکھنا چاہیے۔ اور اب‘ آخر میں ضمیرؔ طالب کی غزل:
ایک آنسو روکنے میں/عمر گزری قہقہے میں
راستے میں کچھ نہیں تھا/ منزلیں تھیں قافلے میں
عشق کب کا مر چکا ہے/ مقبرہ ہے آگرے میں
ساتھ ہی رہتا ہے کوئی / تیرے جیسا دیکھنے میں
جو بھی کچھ تھا پاس میرے / گر گیا ہے ناچنے میں
سینہ کوئی‘ دل کوئی ہے/ بدلا سب کچھ کھیلنے میں
اوسلو میں کھو گیا تھا/ مل گیا ہے کوئٹے میں
جو نہ تھا برپا کہیں بھی/ میں مرا اس حادثے میں
وصل کے ہوتے ہوئے تھا/ ہجر میرے رابطے میں
آج کا مقطع
اُسے ہماری محبت پہ شک بجا تھا‘ ظفرؔ
ہمارا نامۂ اعمال ہی کچھ ایسا تھا