"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخی‘ متن ‘درستی‘ ڈاکٹر اے آر خالد اور عامرؔ سہیل کی غزل

عمران خان نے میرا نام لے کر گرفتاری کا حکم دیا: رانا ثناء اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان نے میرا نام لے کر گرفتاری کا حکم دیا‘‘ اس لیے میں بھی وزیراعظم کا نام لے کر ہی بیان دے رہا ہوں؛ اگرچہ میری مونچھوں کی طرف ہی اشارہ کر دیا جاتا تو وہی کافی تھا۔ میرا نام لینے کی کیا ضرورت تھی؟ تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زبان پر میرا نام تو آیا‘ یعنی : ع
زباں پر تری میرا نام اللہ اللہ
چنانچہ میری گزارش ہے کہ آئندہ جس جس نواز لیگی کو گرفتار کرنا ہو ‘اس کا باقاعدہ نام لیا جائے ‘تاکہ اس کی عزت افزائی میں اضافہ ہو‘ کیونکہ یہ عزت ہی کا تو سارا کھیل ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
ڈاکٹر رضا بخاری نے اپنے کالم میں تین شعر درج کیے ہیں ؎
برخاک ز رحمت آسمانے
بہ چراغ ز دولت آسمانے
در حجرۂ فقر بادشا ہے
در عالمِ دل جہاں پنا ہے
شاہنشہ بسر یر و تاج
شاہانش بہ خاک پائے محتاج
دوسرے شعر میں ٹائپ کرنے والے نے بادشا ہے اور جہاں پنا ہے‘‘ کو بادشا ہے اور جہاں پنا ہے‘‘ کر دیا ہے‘ تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے‘ جس سے مصرع خارجہ از وزن بھی ہو گیا ہے اور اس کی سمجھ بھی نہیں آتی۔
ڈاکٹر اے آر خالد کی دو کتابیں
پہلی کا نام '' فتنۂ ابلاغ‘‘ رکھا گیا ہے‘ اسے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے چھاپا ہے۔ انتساب شیخ صالح ابی طالب کے نام ہے‘ جو 2003ء سے لیکر 2018ء تک امامِ کعبہ رہے۔ پس سرورق ناشر علامہ عبدالستار عاصم کی مصنف کے بارے تحریر اور تعارف ہے‘ جبکہ اندرون سرورق اردو اور انگریزی روزناموں کی رائے درج ہے۔ پیش لفظ مصنف کا بقلم خود ہے۔ یہ کتاب میڈیا کی کوتاہیوں‘ زیادتیوں اور حدود و قیود سے بحث کرتی ہے‘ جس میں قیام پاکستان سے لیکر اب تک کی اس حوالے سے ایک پوری تاریخ بیان کر دی گئی ہے۔ کتاب دلچسپ اور معلومات افزا ہے اور اس سے کتاب کے نام کا بھی ایک جواز نکلتا ہے۔دوسری تصنیف کا نام ہے ''کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے‘‘ جو بجائے خود کسی شعر کا مصرع بھی لگتا ہے۔ انتساب چودھری پرویز الٰہی کے نام ہے‘ جنہوں نے سیاست کو خدمت اور خدمت کو عبادت سمجھا‘‘ جس کے ساتھ چودھری صاحب کی نمایاں تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔ پس سرورق حسب ِمعمول قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے علامہ عبدالستار عاصم کی تحریر ہے۔ دونوں کتابوں کے پس سرورق مصنف کی تصویر بھی چھاپی گئی ہے۔ اندرون سرورق اسی طرح اردو اور انگریزی روزناموں کے تحسینی رائے درج ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے ملک کی ایک مکمل سیاسی تاریخ ہی ہے ‘جس میں مختلف سیاسی شخصیات کی کارگزاریاں تفصیل سے بیان کر دی گئی ہیں‘ جو کسی نہ کسی طرح ملکِ عزیز کے حکمران رہے ہیں ‘جبکہ کتاب کے ٹائٹل پر کچھ حضرات کے خاکے بھی شائع کیے گئے ہیں۔ پیرایہ ٔ بیان دلچسپ ہے ‘جو کتاب کو صحیح معنوں میں قابلِ مطالعہ بناتا ہے۔
اور اب آخر میں عامر ؔسہیل کی یہ تازہ غزل:
لَٹ وہی ہے‘ ماہ پارا اور ہے
آج پہلو میں ستارا اور ہے
اور ہے مٹی کی یہ دیوانگی
تیرے ہونے کا سہارا اور ہے
آج اپنے حسن سے خالی ہو تم
آج رونق پارہ پارہ اور ہے
دُکھ ہرے لہنگے اُٹھا سکتے نہیں
دُلہنوں کا استخارہ اور ہے
یا تمہیں پروا ہماری کچھ نہیں
یا مقدر میں خسارہ اور ہے
یا تمہاری زلف نے ڈھانپا نہیں
یا محبت کا کنارا اور ہے
چھو کے دیکھو کاسنی سے کیسری
اور ہے رخسار یارا اور ہے
دیر کی سہمی ہوئی لگتی ہو تم
دل میں اُترو یہ سپارہ اور ہے
اور ہیں پلکیں تمہاری ساونی
آنکھ سے بہتا اشارا اور ہے
اس غزل میں سوچ ہے جو لوچ ہے
رنگ اُس میں ایک تمہارا اور ہے
بوجھ ہے سینہ اُدھڑتے جسم پر
پیٹھ پر موسم کا دھارا اور ہے
اور تھا کتبے پہ کچھ لکھا ہوا
خواب مٹی میں اُتارا اور ہے
آج کا مقطع
انہدام اپنا ہی اب پیش ِ نظر ہے کہ ظفرؔ
اس سے پہلے کوئی تعمیر نہیں ہو سکتی

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں