احتساب سے ملک اور گورننس کو نقصان پہنچا: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''احتساب سے ملک اور گورننس کو نقصان پہنچا‘‘کیونکہ اس کی وجہ سے ہماری گورننس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے کہ بڑے میاں صاحب اچھے بھلے عوام کی خدمت کر رہے تھے اور جو اُن سے سنبھالی بھی نہیں جا رہی تھی اور عوام حیران و پریشان ہورہے تھے کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؛حتیٰ کہ انہیں اس کی عادت ہی پڑ گئی تھی‘ اور آدمی عادت کے ہاتھوں مجبور تو ہوتا ہی ہے‘ جبکہ میاں صاحب بھی بندہ بشر تھے اور وہ بھی خدمت کی اس عادت کے ہاتھوں مجبور تھے‘ لیکن دشمنوں کو اُن کی یہ ادا ہرگز نہ بھائی اور انہیں نکال پھینکا گیا اور اب‘ وہ پوچھتے ہیں کہ ''مجھے کیوں نکالا‘‘ لیکن کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگوکر رہی تھیں۔
حکومت گرانے کیلئے وفاداریاں تبدیل نہیں کرا رہے: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے کیلئے وفاداریاں تبدیل نہیں کرا رہے‘‘ بلکہ یہ درخواست کی ہے کہ بیشک حکومت کے وفادار ہی رہیں‘ لیکن حکومت گرانے میں ہماری ذرا مدد کر دیں کہ کسی ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا ویسے بھی ثواب کا کام ہے اور دراصل ہم انہیں ثواب کمانے کا موقعہ ہی فراہم کر رہے تھے۔ اس ثواب میں ہم بھی شامل ہوتے؛ اگرچہ ہمیں ثواب کمانے کی کچھ ایسی ضرورت نہیں‘ کیونکہ زرداری صاحب سے لے کر پتا نہیں کہاں کہاںہم نے ثواب کے ڈھیر لگا رکھے ہیں‘ کیونکہ ہم بانٹ کر کھانے میں یقین رکھتے ہیں اور جس کا اندازہ ہمارے فرنٹ مینوں سے لگایا جا سکتا ہے؛ اگرچہ ان میں سے کچھ احسان فراموش وعدہ معاف گواہ بھی بننے کو تیار ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کر رہے تھے۔
لوگ مہنگائی سے مر رہے ہیں اور
عمران خان کہتے ہیں؛ گھبرانا نہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''لوگ مہنگائی سے مر رہے ہیں اور عمران خان کہتے ہیں؛ گھبرانا نہیں‘‘ حالانکہ انہیں گھبرانے کی کھلی اجازت دینی چاہیے‘ جس میں حکومت کا اپنا بھی فائدہ ہے کہ عوام گھبرانے میں مصروف رہیں گے اور حکومت آرام سے اپنا کام کرتی رہے گی اور بہتر ہے کہ وزیراعظم کوئی بیان دینے سے پہلے مجھ سے مشورہ کر لیا کریں؛ اگرچہ میرا ہر بیان حکومت کے خلاف ہی ہوتا ہے کہ ہم نے عوام کو بھی جواب دینا ہوتا ہے؛ اگرچہ عوام ہمارے جواب کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے‘ کیونکہ وہ اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں کہ ہمارے کام اور مقصد صرف بیان دینا ہی ہے‘ تاہم سچی بات تو یہ ہے کہ بیان دینے کے علاوہ ہماری کوئی اور مصروفیت ہے بھی کیا؟ اس لیے عوام بھی اب‘ ہماری مجبوریوں کو سمجھ گئے ہیں۔ آپ اگلے روز منصورہ سے خطاب کررہے تھے۔
صحافی کے سفرنامے
یہ سینئر صحافی ضیا شاہد کی تصنیف ہے ‘جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے چھاپا ہے۔ اس تالیفِ لطیف کے آغاز میں ممتاز سیاسی اور حکمران ہستیوں کے ساتھ مصنف کی تصاویر ہیں‘ جبکہ پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے۔ پس سرورق ‘صاحب موصوف کا مختصر تعارف‘ ان کی تصویر کے ساتھ درج ہے‘ جن میں دنیا کے مشہور ممالک کے مقامات کی جھلکیاں بھی شامل ہیں۔ پیش لفظ کا عنوان ہے؛ یہ سفرنامے‘ یہ تجربے‘ یہ مشاہدات‘ جس سے اس کتاب کے مندرجات کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب میں جن ملکوں کی سیر کرائی گئی ہے‘ ان میں امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ بھارت‘ افغانستان‘ کمبوڈیا‘ ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ وغیرہ شامل ہیں اور جن میں مشاہیر کے ساتھ ملاقاتیں‘ اہم تقریبات میں شمولیت جیسے سبھی مسالے شامل ہیں‘ نا صرف یہ‘ بلکہ مختلف عالمی مسائل پر کھل کر گفتگو بھی کی گئی ہے‘ جس سے یہ کتاب سفرنامے سے آگے کی چیز بن گئی ہے۔ انداز بیاں بھی بہت خوب ہے اور ان کی باتیں بھی دل میں اتر جانے والی ہیں۔فکشن میں سفرنامہ غالباً سب سے زیادہ پڑھی جانے والی صنف ِ ادب ہے‘ جبکہ اس سفرنامے کو جابجا سیاست کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے۔
اور اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
تمہاری باہوں کا جو سرہانہ لگا ہوا ہے
تو سبز خوابوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے
میں آنکھوں پر تازہ خواب بوٹے لگا رہا ہوں
ہر ایک آنسو بہت پرانا لگا ہوا ہے
میں اک تو ہجرت اٹھائے پھرتا ہوں اور اس پر
گلی میں مہدی حسن کا گانا لگا ہوا ہے
تمہاری آنکھیں نہیں ہیں نقشے ہیں وادیوں کے
یہ صرف عینک نہیں‘ خزانہ لگا ہوا ہے
ہمارے دل سے بھی ایک نیکی ہوئی تھی سرزد
ہمارے پیچھے بھی اک گھرانہ لگا ہوا ہے
نجانے میں کون سے زمانے کا آدمی ہوں
نہ جانے یہ کون سا زمانہ لگا ہوا ہے (احمد فاروق)
خلا چپو‘ ستارہ رات کا مانجھی بنے گا
زمیں پانی بنے گا آسماں کشتی بنے گا
بندھے جائیں گے پھر چودہ طبق کے ہاتھ پائوں
کوئی کالا سمندر بان کی رسی بنے گا
پھریں گے معرفت کی تنگ نائے میں ستارے
ولی سورج بنے گا مشتری صوفی بنے گا
بنفشی رنگ ہوں اور جس کے اندر رتجگے ہوں
ہوا کا پیرہن اس آنکھ کی وردی بنے گا
شکستہ پائوں پر کھل جائیں گے اسرار ہمارے
سفر تازہ بنے گا راستہ کنجی بنے گا (رفیق سندیلوی)
آج کا مقطع
جانے کیا جلدی تھی اٹھ کر چل دئیے یوں ہی ظفرؔ
رہ گیا گھر میں ہی سامانِ سفر باندھا ہوا