"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور عامرؔ سہیل کی تازہ غزل

نئے سال میں اللہ درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے: شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''نئے سال میں اللہ درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘ اور جو‘ اب تک غلط فیصلے کیے ہیں‘ ان کی معافی عطاکرے‘ کیونکہ درست فیصلے اللہ کی مرضی سے ہوتے ہیں ‘جس کے بغیر پتّا تک نہیں ہل سکتا‘ تاہم اگر اللہ اب‘ بھی درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا نہ فرمائے ‘تو اسی طرح غلط فیصلے ہی ہوتے رہیں گے‘ کیونکہ ہم کیا کر سکتے ہیں‘ ماسوائے دعا کرنے کے کہ اللہ ہم سے درست فیصلے بھی کروائیں‘ جس کی اللہ ہم کو توفیق عطا فرمائیں ‘ جبکہ غلط فیصلوں کیلئے اس کی توفیق کی ضرورت نہیں پڑتی اور وہ ہم اپنے آپ ہی کر لیتے ہیں اور بعد میں معافی کی درخواست بھی کر لیتے ہیں‘ کیونکہ توبہ اور معافی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے‘ جو ہم بندہ بشر لوگوں کیلئے کبھی بند نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز ملتان میں شاہ رکن عالم کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے۔
حیران ہوں عوام نے عمران کو کیسے وزارتِ عظمیٰ پر پہنچا دیا: نبیل گبول
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سردار نبیل گبول نے کہا ہے کہ ''حیران ہوں عوام نے عمران کو کیسے وزارتِ عظمیٰ پر پہنچا دیا‘‘ کیونکہ انہوں نے تو ہماری طرح دونوں ہاتھوں سے عوام کی خدمت ہی نہیں کی ہوئی اور وہ بھی اس لیے کہ ان میں یہ خدمت کرنے کی اہلیت ہی نہیں اور جس سے ہماری ساری درخشندہ روایات پر پانی پھیر دیا ہے؛حالانکہ عوام پہلے ہمیشہ سیاسی لوگوں کو اس طرح نوازا کرتے تھے اور جس کیلئے ہم ان کے ہمیشہ کیلئے ممنونِ احسان بھی ہیں ‘لیکن اس دفعہ انہوں نے بھی اپنی روایات پر عمل نہیں کیا‘ جس کی اُن سے ہرگز امید نہیں تھی‘ جبکہ اب ‘کافی عرصے سے وطن ِ عزیز میں سارے کام امید اور توقع کیخلاف ہی ہو رہے ہیں اور حکومت نے کمال مہارت سے کام لیتے ہوئے انتقامی کارروائی شروع کر دی ہے اور بس کرنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور ہمارے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی خراب کر رہی ہے اور اس طرح دُگنے گناہ کا ارتکاب کر رہی ہے اور اسے خوفِ خدا بھی نہیں۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں شریکِ گفتگو تھے۔
نا اہل حکمرانوں نے ترقی کرتے ملک کو ریورس لگا دیا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نا اہل حکمرانوں نے ترقی کرتے ملک کو ریورس لگا دیا‘‘ چلیے‘ اگر ملک ترقی نہیں کر رہا تھا تو ہم تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کر ہی رہے تھے‘ جو اندھوں کو بھی صاف نظر آ رہی ہے اور اس پر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی؛ اگرچہ تاریخ تو ہمیں بھی معاف کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے گی‘ جبکہ ہمیں تو جغرافیہ بھی شاید ہی معاف کرے‘ اسی لیے دل برداشتہ ہو کر میں نے واپسی کا ارادہ ترک کر دیا ہے اور بھائی صاحب کی ورزش‘ جوڈو کراٹے اور پرہیزی کھانوں کی تیاری میں لگا رہتا ہوں اور جو وہاں ہماری جائیدادیں وغیرہ ضبط ہو رہی ہیں‘ تو ہمیں ان کی ہرگز پروا نہیں‘ کیونکہ ہماری اصل جائیدادیں تو یہاں ہیں اور ہم نے واپس جا کر کرنا بھی کیا ہے کہ ہم نے جو نیک نامی کمائی کی ہے‘ ہم اور ہماری آئندہ نسلیں بیٹھ کر کھائیں گی ‘ کیونکہ ہم قناعت پسند آدمی ہیں ۔ آپ اگلے روز لندن سے گفتگو کر رہے تھے۔
موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے بہتری نظر نہیں آ رہی: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے بہتری نظر نہیں آ رہی‘‘ حتیٰ کہ مجھے بھی نظر نہیں آ رہی‘ یقینا یہ میری بینائی کا قصور ہے‘ شاید عینک بدلوانی پڑے اور یہ ناجائز خرچہ بھی اسی حکومت ہی کے کھاتے میں ڈالا جائے گا‘ جبکہ بلا ناغہ بیان دے دے کر میں پہلے ہی تھک چکا ہوں‘ لیکن حکومت پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا‘ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ حکومت کیخلاف بلا ناغہ بیانات دینے کی بجائے میں اس کیلئے ہفتہ وار کا سلسلہ جاری کر دوں‘ جس پر ہینگ لگتی ہے‘ نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے گا۔یوں دل کی بھڑاس تو نکل ہی جاتی ہے اور میں حیران ہوں کہ دل کے اندر اتنی بھڑاس کیسے جمع ہو گئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک ِگفتگو تھے۔
نوٹ :میںK 35ماڈل ٹاؤن میں شفٹ ہو گیا ہوں۔ قارئین اور احباب مطلع رہیں!
اور اب‘ آخر میں عامرؔ سہیل کی یہ تازہ غزل:
چاہے گلدان میں سب زخم پرانے رکھو
تم محبت کی جگہ عشق سرہانے رکھو
تم نے میرے لیے تنہائی کو تجویز کیا
رونے والوں کے لیے اور بہانے رکھو
حمد میں سُورۂ الحمد میں بسرام کرو
موجۂ زلف میں کچھ اور زمانے رکھو
اُس سے کچھ بات جسے سننے کی فرصت ہی نہیں
اس سے کچھ ربط (کہ جو حال نہ جانے) رکھو
جو ہرن چوکڑی بھرتے ہیں انہیں داد تو دو
کیا ضروری ہے کہ ہر پشت پہ طعنے رکھو
ہم سے کہتی ہیں کمانیں کہ ابھی وقت نہیں
تیر سے دور‘ بہت دور نشانے رکھو
جسم ایسے نہ چرائو کہ کوئی جرم لگے
یوں کھلے سر نہ جواہر کے خزانے رکھو
جتنے ڈاکو ہیں تحفظ ہو فراہم ان کو
اور کمزور پہ بندوق کو تانے رکھو
یہ ہوا کہتی ہے یہ ہم سے فضا کہتی ہے
کرفیو آنکھ سہے‘ نیند کو تھانے رکھو
ہم مضافات کی مسجد میں کھڑے کہتے ہیں
لوگ معصوم سہی‘ شہر سیانے رکھو
گھاس تک رنگ بدل لیتی ہے اس میں عامرؔ
یہ جدائی ہے میاں‘ ہوش ٹھکانے رکھو
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں ظفرؔ
کہاں سے دور ہے دنیا‘ کہاں سے دور نہیں

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں