پاکستان عمران خان کے مضبوط ہاتھوں میں ہے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''پاکستان وزیراعظم عمران خان کے مضبوط ہاتھوں میں ہے‘‘ جن سے نکلنے کی وہ بہت کوشش کر رہا ہے، لیکن کامیاب نہیں ہو رہا، کیونکہ عمران خان کا جکڑ بند ہی اتنا سخت ہے کہ اس کا کوئی چارہ نہیں چل رہا اور اُن سے درخواست کی جا رہی ہے کہ ملک اگر آپ کے قابو آ ہی گیا ہے، تو ہاتھ ذرا ہولا رکھیں کہ یہ کھُل کر سانس تولے سکے۔ بصورت دیگر ان بزرگوں سے ہی استدعا کی جائے جن کی دعا کی برکت سے وہ وزیراعظم بنے ہیں، اور اُن سے یہ بھی گزارش کی جائے کہ آئندہ ایسا کام ہرگز نہ کریں کہ آخر اس ملک نے آپ کا کیا بگاڑا ہے۔ اور اگر کچھ بگاڑا بھی ہے تو معاف کر دیں کیونکہ وہ بھی بندے بشر ہیں اور انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے کہ وہ خطا کا پتلا ہے، تاہم اس پُتلے کا کٹھ پتلی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی گارنٹی چاہیے ہو تو ہم وہ بھی دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ پہلے تو ہمارا خیال تھا کہ وہ اس جکڑ بند پر بھی یوٹرن لے لیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پہلی بار وزیراعظم جلسے میں تنقید کر رہے ہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پہلی بار وزیراعظم جلسے میں بڑی عدالت پر تنقید کر رہے ہیں‘‘ حالانکہ اس کے لیے پریس کانفرنس بھی کی جا سکتی ہے تا کہ اثر بھی زیادہ ہو، تاہم بہتر ہے کہ تنقید کا کام نچلی سطح سے شروع کیا جائے اور ترقی کرتے کرتے اوپر تک پہنچا جائے جبکہ یہ زیادہ مفید مطلب ہوگا کہ یہ تنقید اوپر سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ نیچے تک آ جائے، انہوں نے کہا کہ ''بھیک مانگ کر ملک ترقی نہیں کر سکتے‘‘ اور اگر ادھار یا بھیک کے پیسوں کے بغیر ملک کا کاروبار نہیں چلایا جا سکتا تو اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ ملک کو دیوالیہ ڈکلیئر کر دیا جائے جس سے اربوں ڈالر کے بیرون ملکی قرضے بھی اپنے آپ ختم ہو جائیں گے اور اس بات کو غنیمت سمجھا جائے کہ میں وزیراعظم کے لیے نرم اور ہمدردانہ بیان دے رہا ہوں حالانکہ اس خلافِ معمول حرکت سے میری صحت خراب ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے، جبکہ اس کیلئے شکریہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہوائوں کا رخ بدلنے سے پہلے نیب قانون بدل گیا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت نے ہوائوں کا رخ بدلنے سے پہلے نیب قانون بدل دیا‘‘ حالانکہ اگر ہوائوں کا رخ بدلنے کا موقعہ دیا جاتا تو شاید مجھ پر چلنے والے مقدموں کا رخ بھی تبدیل ہو جاتا جو ایک مذاق کے طور پر میرے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ میری احتساب ادارے کے ساتھ کوئی بے تکلفی نہیں ہے جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کے مرتکب ہوں جبکہ میں نے نارووال سپورٹس کمپلیکس میں جو کچھ کیا تھا وہ پوری سنجیدگی سے کیا تھا جس میں مذاق وغیرہ کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ بلکہ میرے بھائی کا کام بھی مکمل طور پر سنجیدہ تھا اور وہ تو اس قدر متین اور سنجیدہ شخص ہے کہ اس نے کبھی میرے ساتھ بھی مذاق نہیں کیا، اس لیے احتساب ادارے کو چاہیے کہ اگر کام کرنا ہے تو پوری سنجیدگی سے کرے ۔ آئندہ میں اس قسم کا مذاق برداشت نہیں کروں گا۔آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پانچ سال یہی حالات رہے تو عمران خان ذمہ دار ہوں گے: علی محمد
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ ''پانچ سال بھی یہی حالات رہے تو عمران خان ذمہ دار ہوں گے‘‘ اور اگر حالات ان سے بھی بدتر ہوئے تو عمران خان ہرگز ذمہ دار نہیں ہوں گے اور اسی ذمہ داری سے بچنے کے لیے حالات کو ایک خاص سمت میں موڑا جا رہا ہے جس میں، یقین ہے کہ ہم پوری طرح کامیاب ہوں گے کیونکہ وہ ساتھ ساتھ عوام کو صبر کی تلقین بھی کرتے رہیں گے حتیٰ کہ لوگ صبر کرنے کے عادی ہیں،کیونکہ یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ خدا صبر کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے اور صابر و شاکر لوگوں کی عاقبت بھی کافی حد تک سنور جائے گی۔ یعنی دونوں صورتوں میںفائدہ اور مجھے یقین ہے کہ اس موضوع پر کوئی اور محاورہ بھی ضرور ہوگا جبکہ ہم اہلٍِ زبان نہ ہونے کے باوجود محاوروں پر پختہ یقین رکھتے ہیں کیونکہ با محاورہ ہونا توویسے بھی سعادت کی بات ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل میں شریک گفتگو تھے۔
اور، آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
در پیش کب سے تھا جو سفر ہی نہیں رہا
چلنا تھا جس پہ راہگزر ہی نہیں رہا
یہ دل دھڑک رہا ہے، تری یاد کے بغیر
اس کا جو اصل کام ہے کر ہی نہیں رہا
کیا جانے راتوں رات کہاں کوچ کر گئے
جس پر صدا لگائی وہ در ہی نہیں رہا
جو کشتیوں کو اپنی طرف خود ہی کھینچ لے
وہ اپنے پانیوں میں بھنور ہی نہیں رہا
جس طرح ہمارے کام سے برکت ہی اُٹھ گئی
اگلا سا بات میں وہ اثر ہی نہیں رہا
تکمیل کی اُمید اُسی سے لگائی ہے
جو کام اپنے پیشِ نظر ہی نہیں رہا
یہ زندگی دکان تھی ایسی جہاں ہمیں
کچھ امتیازِ نفع و ضرر ہی نہیں رہا
یہ شاعری بھی جیسے کسی اور ہی کی ہے
تھوڑا بہت جو تھا وہ ہنر ہی نہیں رہا
میری زمین پہ پائوں وہ دھرتا تو کیا ظفرؔ
جو اپنے آسماں سے اُتر ہی نہیں رہا
آج کا مقطع:
وہ چومنے کو تو کیا دستیاب ہو کہ ظفرؔ
یہی بہت ہے اگر دیکھنے کو ملتا ہے