"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور ضمیرؔ طالب کی شاعری

فخر ہے فواد حسن فواد نے ضمیرپر سودے بازی
کی بجائے مشکلات کو ترجیح دی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''فخر ہے فواد حسن فواد نے ضمیرپر سودے بازی کی بجائے مشکلات کو ترجیح دی‘‘ البتہ ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دونوں میں سے اثاثے کس کے زیادہ ہیں‘ جبکہ میرے اثاثوںمیں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ضمیر کے مطابق اپنا دال دلیا بھی کرتے رہتے تھے‘ اس لیے فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فخر مجھے زیادہ کرنا چاہیے یا فواد حسن فواد کو اور‘ جہاں تک مشکلات کا تعلق ہے تو وہ اس وقت تک ہیں ‘جب تک وہ پاکستان میں موجود ہیں اور لندن آتے ہی وہ آسانیوں میں تبدیل ہو جائیں گی؛ چنانچہ امید ہے کہ انہوں نے طے کر لیا ہوگا کہ انہیں کون‘ کون سی بیماریاں لاحق ہوئی ہیں‘ جن کی رپورٹ انہوں نے کس کس ڈاکٹر سے تیار کروانی ہے ۔ آپ اگلے روز لندن میں فواد حسن فواد کی ضمانت کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایک بیان دے رہے تھے۔
کسی ملک کا وزیراعظم بدحال ہو تو ملک کا کیا ہوگا: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کسی ملک کا وزیراعظم بدحال ہو تو ملک کا کیا ہوگا‘‘ اور یہی ان کے نالائقی اور نا اہلی کا سب سے بڑا ثبوت بھی ہے‘ ورنہ کسی وزیراعظم کا خوش حال ہونا اس کیلئے کیا مشکل ہے اور ان کی بدحالی کے پیش ِنظر ہم نے بھی اقتدار میں آنے سے کانوں کو ہاتھ لگا لیے ہیں کہ بدحال ہو جانا کوئی عقلمندی کی بات نہیں اور اس اصول کی پاسداری پر آئندہ بھی عمل کرتے رہیں گے ‘کیونکہ ہماری تو ساری عمارت ہی اصولوں پر کھڑی ہے اور ہماری دعا ہے کہ خدا کسی دشمن کو بھی ملک کا وزیراعظم نہ بنائے اور یہ عجیب بات ہے کہ وزیراعظم کی بدحالی کے ساتھ ملک کسی قدر خوش حالی کی طرف رواں ہو گیا ہے ‘جبکہ دوسری بڑی جماعتوں کے لیڈر خود خوشحال اور ملک بدحال ہوتا گیا‘ کیسی عجیب منطق ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مجھے کاغذی کارروائی نہیں‘ عملی اقدامات چاہئیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''مجھے کاغذی کارروائی نہیں‘ عملی اقدامات چاہئیں‘‘ کیونکہ کاغذی کارروائی میں صرف کاغذ کاضیاع ہوتا ہے اور ملک کی معاشی صورت ِحال کے پیش نظر یہ کارروائی بہت مہنگا سودا ہے اور عملی اقدامات میں مجھے صرف زبانی رپورٹ دینی ہوتی ہے کہ فلاں مسئلہ کے حل کے لیے کوشش کی جا رہی ہے ‘جبکہ مسائل کے حل کے لیے کوشش ہی کی جا سکتی ہے‘ کیونکہ انہوں نے حل تو اپنی قسمت سے ہونا ہوتا ہے اور زیادہ تر مسائل بد قسمت واقع ہوئے ہوتے ہیں‘ کیونکہ اس کا حل ہونا اللہ میاں کو منظور ہی نہیں ہوتا‘ جس طرح میرا وزیراعلیٰ رہنا عمران خان کو منظور ہے‘ ارکان اسمبلی کو منظور نظر نہیں آتا ‘جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی میری فکر چھوڑ کر اپنی بدحالی ہی کا رونا روتے رہتے ہیں اور میرا بھی زیادہ وقت ان پر ترس کھانے ہی میں گزر جاتا ہے اور آٹے کا بحران بھی میری اسی مصروفیت کے باعث پیدا ہوا۔ آپ اگلے روز لاہور میں راحت لطیف کے انتقال پر تعزیت کر رہے تھے۔
ن لیگ‘ پیپلز پارٹی نے علامتی ساتھ دیا‘
ہمارے دروازے کھلے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ن لیگ‘ پیپلز پارٹی نے علامتی ساتھ دیا‘ ہمارے دروازے کھلے ہیں‘‘ کیونکہ اگر ایک بار پھر وہ علامتی ساتھ دے دیں‘ تو ہمارے لیے کافی ہے؛ البتہ اس میں چندہ ضرور شامل ہوگا ‘جسے بس علامتی طور پر ہی خرچ کیا جائے گا اور باقی بچا لیا جائے گا‘ کیونکہ اسراف اللہ میاں کو پسند نہیں‘ تاہم ہمارے دروازے تو اس وقت بھی کھلے تھے‘ جب دونوں پارٹیاں مک مکا کر کے برف میں لگ کر بیٹھ گئی تھیں؛ حالانکہ شدید سردی کے اس موسم میں برف میں لگ کر بیٹھنا بجائے خود ناقابلِ فہم ہے! آپ اگلے روز کراچی میں آصف علی زرداری کی عیادت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیرؔ طالب کی تازہ شاعری:
آواز ہوں تو تجھ سے چھپانے کے لیے ہوں
خاموش ہوں تو تجھ کو سُنانے کے لیے ہوں
وہ اُترا ہے جب سے سمندر کے اُس پار
میں اُس پار تک دیکھ سکنے لگا ہوں
نہیں معاف کیا ہے کسی نے بھی مجھ کو
یہاں پہ گویا سبھی لوگ میرے اپنے ہیں
گھڑی کسی نے ہے باندھی میری کلائی پر
ہے میرے وقت کا مالک ضمیرؔ اور کوئی
مُرید اور کسی کا میں ہو چکا ہوں مگر
ہے بن کے بیٹھا ہوا میرا پیر اور کوئی
وہ دیکھنے کی تھی چیز کوئی
جسے میں کھا اور پی رہا ہوں
کسی کی مجھ پر نظر نہیں ہے
بڑے مزے سے میں جی رہا ہوں
کمان تو اور کوئی تھی کھچی ہوئی مجھ پر
لگا ہے دل میں مرے آ کے تیر اور کوئی
جانا ہے کہیں مجھ کو نہ آنا ہے کہیں پر
میں تو یہاں یہ رستہ دکھانے کے لیے ہوں
اپنی مالک بنانے کی خاطر
ایک باندی خریدی ہے میں نے
جتنی قیمت میں خریدی ہے یہ نفرت تم نے
اس سے آدھی میں تو آ جاتی ہے چاہت مرے دوست
اُس کے لہجے میں ضمیرؔ
ناروے کی سردی تھی
آج کا مقطع
اب اس کی سوچ کے ساحل سے آ لگا ہوں‘ ظفرؔ
کہ ایک عمر رہا ہوں بھنور کی صحبت میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں