حکومتی اقدامات خورد بین سے نظر نہیں آتے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومتی اقدامات خورد بین سے نظر نہیں آتے‘‘ حالانکہ میں نے بڑا اہتمام کر کے بڑی مہنگی خوردبین خریدی تھی‘ لیکن سخت مایوسی ہوئی‘ اس لیے اب حکومت کا اخلاقی فرض ہے کہ مجھے خوردبین پر خرچ کئے گئے پیسے واپس کر دے‘ جبکہ دکاندار کو واپس کرنے کے لیے گیا تو اس نے صاف انکار کر دیا‘ بلکہ الٹا یہ کہا کہ آپ کی بینائی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کمزور ہے‘ چنانچہ بینائی چیک کروانے کیلئے مزید خرچہ کرنا پڑا اور میں ان خرچوں کا پورا پورا حساب رکھ رہا ہوں‘ تا کہ اس ضمن میں باقی جو خرچے ہونا ہیں‘ وہ بھی اکٹھے ہو لیں‘ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ میرے ہر خرچے کی ذمہ دار حکومت ہے ‘اس لیے اسے ہوش کے ناخن لینا چاہئیں ‘جبکہ یہ محاورہ بھی مجھے پریشان کر رہا ہے کہ ہوش کے اگر ناخن ہوتے ہیں تو آخرکہاں ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم آئی جی کے معاملے میں اپنا فرض انجام دیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم آئی جی کے معاملے میں اپنا فرض انجام دیں‘‘ جبکہ یہ آئی جی صاحب تو ہمارے معزز وزرا کی حرکات و سکنات کا بھی کھوج لگاتے رہتے ہیں؛ حالانکہ یہ شرفا اگر کوئی گڑ بڑ کرتے بھی ہیں تو ان کی ایسی شکایات دور کرنے کیلئے اسمبلی موجود ہے‘ تاہم خدشہ ہے کہ جو نیا آئی جی آیا‘ بالآخر اس نے بھی یہی کام شروع کر دینا ہے؛ حالانکہ آئی جی حضرات کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے‘ جبکہ وزراء کے کام میں مداخلت کرنا اس کے فرائض میں ہرگز شامل نہیں ‘ کیونکہ اگر ہم پولیس کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرتے تو پولیس ایسا کیوں کرتی ہے۔ خاص طور پر آئی جی جیسے عہدے پر فائز شخصیت کو یہ زیب نہیں دیتا اور اگر یہی آئی جی رہا‘ تو ہمیں پریشان کرتا رہے گا ‘جبکہ مقدمات کی وجہ سے ہم پہلے ہی کافی پریشان ہیں۔ آپ اگلے روز حسب ِمعمول ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عوام جلد اس حکومت سے نجات حاصل کریں گے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب ِاختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''عوام جلد اس حکومت سے نجات حاصل کریں گے‘‘ اور میں نے خود ناپ کر دیکھا ہے‘ یہ فاصلہ بس چند ہزار میل ہی کا ہے‘ جو زیادہ سے زیادہ تین چار سال میں طے ہو سکتا ہے؛ اگرچہ ہم سے تو عوام کو نجات حاصل کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملا تھا‘ بس برادرم حسین نواز کی ایک الحمد للہ نے سارا کام کر دیا؛ حالانکہ توبہ استغفار پڑھنے سے ان کی گلو خلاصی جلد ہی ہو سکتی تھی اور اب تو انہیں کچھ بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ اصل قیادت تو پہلے ہی توبہ تائب ہو چکی ہے اور اگر مریم آپا بھی کسی نہ کسی طرح ان سے جا ملتی ہیں تو یہاں مطلع بالکل ہی صاف ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی میں مہنگائی بڑھنے پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔
الحمراء
یہ ماہ نامہ لاہور سے ہمارے دوست شاہد علی خان نکالتے ہیں اور یہ پنجاب کا واحد جریدہ ہے‘ جو باقاعدگی سے چھپنے کی وجہ سے قابلِ ذکر رہتا ہے۔ زیر نظر شمارہ سالنامہ ہے ‘جو زائد از تین صد صفحات پر پھیلا ہوا ہے ‘جبکہ کسی رسالے کا باقاعدگی سے چھپنااتنا اہم نہیں ‘جتنا اس کا معیار اہمیت کا حامل ہوتا ہے‘ جس سے مدیر اگر مطمئن ہیں تو یہ ایک افسوسناک بات ہے۔ حالت یہ ہے کہ جہاں تک حصہ شعر کا تعلق ہے تو وہ قابلِ رحم ہے‘ جبکہ حصہ نثر غنیمت ہے اور وہ بھی فکشن کی حد تک‘ باقی درجہ بدرجہ خیریت ہے۔ اب تو اسے اشتہار بھی ملنے لگے ہیں اور اگر فاضل مدیر کو اس پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے ‘تو وہ کسی ایسے شخص کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں ‘جو شعر و ادب کی واقعی سمجھ بوجھ رکھتا ہو‘ یہ مسابقت کا زمانہ ہے اور کراچی سے چھپنے والے رسالے نا صرف معیار میں کہیں بہتر ہیں ‘بلکہ ان میں چھپنے والی نگارشات کا معتدبہ حصہ پنجاب ہی سے جاتا ہے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کی تازہ شاعری:
کوئی آسانی بہم کرتا نہیں ویسے تو
گو مرا کام بھی دشوار نہیں کرتا ہے
ہجر سے تو نکل چکا تھا اب
فقط اس کی جدائی میں تھا ضمیرؔ
بس ایک گُل سے چراغاں تھا گلستاں میں ضمیرؔ
اور اک ستارے سے مہکی ہوئی فضائیں تھیں
غلط اندازہ شور کرتا ہے
ہجر ہے تازہ‘ شور کرتا ہے
رات کو احتیاط سے آنا
دل کا دروازہ شور کرتا ہے
حسن اس کا ایسے پانی کی طرح ہے
جس کو دیکھیں تو گزر جاتا ہے سر سے
دیکھ سکتا میں اسے دور تلک
پاس اتنا ابھی آیا ہی نہیں
اس نے آواز سنائی ہے ابھی
ابھی سنّاٹا سنایا ہی نہیں
اس قدم نے ہے تھکایا مجھ کو
جو قدم میں نے اٹھایا ہی نہیں
ضمیرؔ کھاتی ہے اندر سے ایک سوچ مجھے
اور اک خیال مجھے نوچتا ہے باہر سے
آج کا مقطع
لوگوں میں ظفرؔ آپ زباں ساز بھی کہلائے
اور بات بھی کرنے کا سلیقہ نہیں آیا