آئی جی سندھ وفاق کو انگوٹھا دکھا رہے ہیں: سعید غنی
سندھ کے و زیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ''آئی جی سندھ وفاق کو انگوٹھا دکھا رہے ہیں‘‘ جو پہلے حکومت سندھ کو انگوٹھا دکھایا کرتے تھے اور اب وفاق کو بھی دکھا رہے‘ ایسا لگتا ہے کہ یا تو ان کا انگوٹھا زخمی ہے یا ان کا گُٹ نکل گیا ہے اور ان کی حالت واقعی قابلِ رحم ہے ‘جبکہ ہم نے تو انہیں اس کے علاج کی پیشکش بھی کی ہے‘ لیکن وہ ہم پر کچھ زیادہ اعتبار نہیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم خدانخواستہ ان کا انگوٹھا مزید خراب کر دیں گے؛ حالانکہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں‘ کیونکہ خراب کرنے کیلئے یہاں ہمارے پاس بے شمار چیزیں ہیں‘ بلکہ یہاں تو کوئی چیز صحیح نظر ہی نہیں آتی‘ اس لیے ہم ان کا انگوٹھا خراب کر کے اپنی مصروفیات میں اضافہ نہیں کر سکتے‘ کیونکہ ہمیں سندھ کی ابھی اور بہت سی چیزوں کو خراب کرنا ہے؛ اگرچہ کوئی چیز خال خال ہی باقی رہ گئی ہو گی‘ جو ہمارے ہاتھوں خراب ہونے سے بچی ہو۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
مودی اور ٹرمپ کیخلاف اعلانِ جنگ ہونا چاہیے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''مودی اور ٹرمپ کیخلاف اعلانِ جنگ پارلیمنٹ سے ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ پارلیمنٹ اور تو کچھ کر نہیں رہی‘ کم از کم ان دونوں کیخلاف اعلان ِجنگ ہی کر دے ‘تا کہ روز روز کا یہ ٹنٹا ختم ہو‘ کیونکہ اگر مودی کیخلاف جنگ جیت بھی گئے تو ٹرمپ تو پھر بھی باقی رہ جائے گا‘ جس کا قلع قمع کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں جو تھوڑے بہت پاکستانی زندہ بچ بھی گئے تو وہ غازی کہلائے جانے کے علاوہ کسی کام کے نہیں ہوں گے‘ اس لیے ان کو نقطۂ انجام تک پہنچانے کیلئے کسی اور ملک کیخلاف محاذِ جنگ کھولنا ضروری ہوگا اور میرا خیال ہے کہ اس کیلئے اسرائیل زیادہ مناسب رہے گا ‘تاکہ بیت المقدس کو اس کے تسلط سے آزاد کروایا جا سکے ‘جبکہ خاکسار تو عرصۂ دراز سے کہہ رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جنگ ہی سے حل ہوگا۔ آپ اگلے روز لاہور میں سالانہ اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
سسٹم کی کالی بھیڑوں سے رعایت نہیں ہوگی: فردوس عاشق اعوان
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''سسٹم کے اندر موجود کالی بھیڑوں سے رعایت نہیں ہوگی‘‘ البتہ سسٹم سے باہر موجود کالی بھیڑوں سے ہر طرح کی ر عایت کی جا سکتی ہے؛ اگرچہ کالی بھیڑیں تو ویسے بھی کسی کام کی نہیں ہوتیں؛البتہ کالے بکرے تو پھر بھی صدقہ وغیرہ دینے کے کام آ سکتے ہیں‘ کیونکہ ہمارے سیاسی لیڈروں کو جب بھی کوئی مصیبت پڑتی ہے‘ صدقہ دینے کیلئے کالے بکروں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے اور اس محاورے پر عملدرآمد کی راہیں کھل جاتی ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؛ اگرچہ محاورے میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ آیا اس کا اطلاق کالے بکروں پر بھی ہوتا ہے یا نہیں ؟حالانکہ ہر محاورے کے ساتھ اس کی وضاحت بھی ہونی چاہیے۔ آپ اگلے روز میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
درستی
ہمارے عزیز دوست اور شاعرسعد اللہ شاہ نے آج اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے: ؎
سرِ تسلیم خم ہے کچھ نہ کہیں گے لیکن
یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے
اس شعرکا پہلا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ جبکہ صحیح مصرع اس طرح سے ہے: ع
سرِ تسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے کالم کا عنوان رکھا ہے ''اردو میں خط و کتابت: ایک اچھا فیصلہ‘‘ واضح رہے کہ صحیح ''خط کتابت‘‘ ہے‘ ''خط و کتابت‘‘ درست نہیں ہے!
اشفاق احمد ورک نے کالم میں ایک شعر اسطرح درج کیا ہے: ؎
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنوں
تُو سمجھتا ہے کہ مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
دوسرا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے کہ صحیح مصرعہ اسطرح سے ہے: ع
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
اور‘ اب آخر میں پشاور سے ڈاکٹر اسحاق وردگ کی یہ تازہ غزل:
خواب نے رکھ لیا نشانے میں
تم نے تاخیر کی جگانے میں
اس زمیں کو فلک بنانے میں
میں بھی شامل تھا اک زمانے میں
تیرے کردار کو نبھانے میں
مجھ کو مرنا پڑا افسانے میں
کام کرتے ہیں روز و شب صاحب
ہم محبت کے کارخانے میں
بام و در دشمنوں کے ساتھی تھے
مجھ کو دیوار سے لگانے میں
عشق میں تھوڑی سی سہولت تھی
حضرتِ قیس کے زمانے میں
دین و دنیا سے جانا پڑتا ہے
دل کو دیوانگی بنانے میں
وقت ہی ہر طرف رکاوٹ ہے
لا مکاں سے مکاں بنانے میں
آگ کے درمیان بیٹھے ہیں
قصّہ خوانی کے چائے خانے میں
مکتبِ عشق سے سبق لینے
لوگ آئیں گے ہر زمانے میں
آج کا مقطع
منکشف اُس پہ مرا شوقِ ملاقات‘ ظفرؔ
دُور رہنے سے ہوا‘ آنکھ چرانے سے ہوا