سفید پوش طبقے کا عزت سے رہنا ناممکن بن چکا: شہبازشریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ '' سفید پوش طبقے کا عزت سے رہنا ناممکن بن چکا‘‘ جبکہ سفید پوش طبقے کو دوسرے رنگوں کے یعنی رنگدار کپڑے بھی پہننا چاہئیں‘کیونکہ سفید پوشی تو ایسے لگتی ہے ‘جیسے کفن پہنا ہوا ہو‘ جبکہ کفن پوش آدمی تو خوش ہی نہیں رہ سکتا‘ باعزت کیسے رہ سکتا ہے؟ اس لیے اس طبقے کو سیاہ پوشی کی طرف راغب ہونا چاہیے ‘کیونکہ سیاہ کپڑے پر ایک تو داغ نہیں لگتا اور دوسرے اسے روز روز دھونے کی مصیبت سے بھی گزرنا نہیں پڑتا‘ بلکہ آپ اسے اس وقت تک پوری مستقل مزاجی کے ساتھ پہنے رہ سکتے ہیں اور کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں اپنے لیے کافی آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ آپ اگلے رو میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
تاجروں سمیت سب کا حال بی آر ٹی جیسا ہوگا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''تاجروں سمیت سب کا حال بی آر ٹی جیسا ہوگا‘‘ اور ان سب میں ہم بھی شامل ہیں‘ بلکہ مارچ کرتے کرتے اور دھرنے دیتے دیتے ہماری حالت بی آر ٹی سے بھی بدتر ہو چکی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اپنی تقریروں میں وزیراعظم کے استعفے کا کبھی ذکر تک نہیں کیا اور آئیں بائیں شائیں کر کے ہی رہ جاتے ہیں اور اب دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے‘ تاکہ وہ بھی بالآخر ہمارے جیسی ہی ہو کر رہ جائیں ‘کیونکہ ہماری یہ ناکامی عارضی نہیں ‘بلکہ مستقل ہے اور اگلے الیکشن تک ہمارے ساتھ ہی رہے گی‘ ۔ آپ اگلے روز پشاور میں خطاب کر رہے تھے۔
مہنگائی سے عوام مشکل میں‘ وزیراعظم ذخیرہ
اندوزوں کیخلاف جہاد کیلئے تیار ہیں: اسد عمر
وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''عوام مہنگائی سے مشکل میں‘ وزیراعظم ذخیرہ اندوزوں کیخلاف جہاد کیلئے تیار ہیں‘‘ لیکن جب وہ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو سوچنے لگتے ہیں کہ مساوات کا زمانہ ہے اور ذخیرہ اندوز بھی اس ملک کے شہری ہیں اور اپنے ہی شہریوں کیخلاف جہاد کرنا کوئی عقلمندی نہیں‘ کیونکہ جب وہ باقی سارے کام اتنی عقلمندی سے کر رہے ہیں‘ تو یہ بے عقلی کیسے کریں؟ چنانچہ وہ بزدار صاحب کو تبدیل کر کے بھی امتیازی سلوک کا یہ الزام اپنے ذمہ نہیں لے سکتے ہیں ؛چنانچہ انہوں نے اسی انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے سرحد کابینہ سے نکالے جانیوالے وزراء کی واپسی کیلئے بھی وزیراعلیٰ کو کہہ دیا ہے‘ تاہم مہنگائی کے بارے میں بھی اُن کا خیال ہے کہ جوں جوں عوام صبر سے خوگر ہوتے جائیں گے‘ مہنگائی شرمندہ ہو کر اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز ایک اوور ہیڈ برج کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
مختلف الخیال لوگ ذاتی مفادات کیلئے جمع ہوگئے ہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''مختلف الخیال لوگ ذاتی مفادات کے لیے جمع ہو گئے ہیں‘‘ جبکہ ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں‘ کیونکہ جب ہماری ذات ہی غائب غلّہ ہو کر رہ گئی ہو تو ذاتی مفاد کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا‘ بلکہ ہماری تو کبھی غیر ذاتی مفاد پر بھی نظر نہیں رہی‘ کیونکہ ہم مفاد پرست نہیں اور اس مفاد پرستی سے کیا حاصل ہو گا ‘جس سے سارے مفادات ایک خواب ہو کر رہ گئے ہوں‘ جبکہ ہمارا مفاد میری روزانہ تقریر ہی پر مشتمل ہو کر رہ گیا ہے ‘کیونکہ اس پر خرچ بھی کچھ نہیں آتا اور عوام میں حاضری بھی لگتی رہتی ہے ۔ آپ اگلے روز منصورہ میں سالانہ اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں فیصل آباد سے ثنا اللہ ظہیر کی شاعری:
خود میں اترے اور طغیانی سے باہر آ گئے
آ کے گہرائی میں ہم پانی سے باہر آ گئے
اس کی رونق میں بہت سنسان سے رہتے تھے ہم
شہر سے نکلے تو ویرانی سے باہر آ گئے
بے آب و دانہ ہیں تو مرے شہر آئیں آپ
یاں روزگار ہو نہ ہو لنگر وغیرہ ہے
شاہین کے شکار کو نکلے تھے بھائی لوگ
دل میں سمجھ رہے تھے کبوتر وغیرہ ہے
آپس کی نوک جھونک نہ بچوں کی چھیڑ چھاڑ
کچھ روز سے یہ گھر نہیں‘ دفتر وغیرہ ہے
اُڑنے پہ ہی کھلے گا ابابیل کون ہے
ویسے تو سب کی چونچ میں کنکر وغیرہ ہے
میں نے کہا کہ چبھتا ہے کیا دل کے آس پاس
کہنے لگے کہ کچھ نہیں‘ خنجر وغیرہ ہے
............
تلوار تھام کر بھی نکلنا پڑا ہمیں
غاصب سمجھ رہے تھے کہ شاعر وغیرہ ہے
یہ وہ گلی ہے جس سے ہم ایسے گناہگار
گزریں تو لوگ سمجھیں گے زائر وغیرہ ہے
منزل سمجھ کے راہ میں جس کی پڑا ہوں میں
وہ بھی سمجھ رہا ہے مسافر وغیرہ ہے
آج کا مقطع
اس دل سے‘ ظفرؔ‘ کام تو لیتے کوئی آخر
در ہو نہیں سکتا ہے تو دیوار ہی کرتے