"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور خانہ پری

عوامی خدمت کے سفر میں کوتاہی کرنے 
والا عہدے پر نہیں رہے گا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عوامی خدمت کے سفر میں کوتاہی کرنے والا عہدے پر نہیں رہے گا‘‘ ماسوائے خاکسار کے‘ کیونکہ میرے حصے کی عوامی خدمت خود بخود ہی ہوتی رہتی ہے‘ جبکہ وزیراعظم کا خیال بھی یہی ہے اور اسی لیے وہ مجھے عہدے سے ہٹا نہیں رہے کہ صوبے میں امن و امان کا مسئلہ کنٹرول میں ہے اور چور‘ ڈاکو صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور ہماری طرح کسی اور کے کام میں مداخلت نہیں کرتے ‘بلکہ ان کا حصہ عوام نے پہلے ہی مختص کر رکھا ہوتا ہے اور باہر جاتے ہوئے بھی ایک مناسب رقم اپنے ساتھ رکھتے ہیں‘ کیونکہ اگر جیب خالی ہو تو بھی یہ حضرات گولی وغیرہ چلانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے‘ کیونکہ اپنے حق کیلئے آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے؛ البتہ موبائل اور گھڑی وغیرہ ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ کیونکہ پیسے اگر دستیاب ہو جائیں تو وہ لوگ اس پر قناعت کر جاتے ہیں ۔ آپ اگلے روز فیصل آباد کے ارکان ِصوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
مہنگائی آہستہ آہستہ کم ہوگی‘ صوبے بھی کردار ادا کریں: عبدالحفیظ شیخ
وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ''مہنگائی آہستہ آہستہ کم ہوگی‘ صوبے بھی کردار ادا کریں‘‘ کیونکہ ہم ''سہج پکے سو میٹھا ہو‘‘ کے مقولے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ کھیر ٹھنڈی کر کے کھانی چاہیے‘ ورنہ وہ ٹیڑھی بھی ہو سکتی ہے ‘جبکہ کھیر کا کھیرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ بلکہ اگر یہ اکٹھے کھائے جائیں تو فوڈ پوائزننگ بھی ہو سکتی ہے ‘لیکن اس کا خطرہ اس لیے نہیں ہے کہ آٹا اور روٹی مہنگی ہونے کی وجہ سے اگر روٹی کھائی ہی نہیں جا ئے گی تو فوڈ پوائزننگ کا کیا احتمال ہو سکتا ہے‘ نیز اگر کچھ بھی کھایا ہوا نہ ہو تو معدے کو آرام کرنے کا موقع ملتا ہے‘ جو ہروقت خالی رہنا چاہیے‘ تا کہ پیٹ میں بھوک کی وجہ سے دوڑنے والے چوہوں کو بھاگ دوڑ کے لیے وسیع اور کھلی جگہ میسر آ سکے‘ کیونکہ چوہے بھی اللہ میاں کی مخلوق ہیں اور ہمیں ان کے حقوق کا بھی پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم کا نہیں تو عام مزدور کیسے گزارہ کرتا ہوگا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کا نہیں تو عام مزدور کیسے گزارہ کرتا ہوگا‘‘ چونکہ سوال خاصا دلچسپ تھا ‘اسی لیے میں نے اس کا جواب حاصل کرنا ضروری سمجھا اور اللہ کا نام لے کر عام مزدور کی تلاش میں نکل پڑا؛ حالانکہ وہ میرا روزانہ کی تقریر تیار کرنے کا وقت تھا؛ چنانچہ تلاشِ بسیار کے بعد ایک مزدور ہاتھ لگا تو معلوم ہوا کہ وہ خاص مزدور ہے‘ عام نہیں‘ اس لیے اس سے گلو خلاصی حاصل کی اور دوبارہ عام مزدور کی تلاش میں چل پڑا؛ چنانچہ بہت تگ و دو کے بعد ایک عام مزدور مل ہی گیا‘ لیکن جب اس سے پوچھا کہ وہ گزارہ کیسے کرتا ہے تو وہ الٹا مجھ سے کہنے لگا: آپ سفید پوش لوگ ہیں‘ آپ کا اس بات سے کیا تعلق ہو سکتا ہے کہ ہمارا گزارہ کیسے ہوتا ہے۔ اس پر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں نے اس وقت سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا کہ پھر کسی دن رنگدار کپڑے پہن کر اس مہم پر نکلوں گا ۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکمران عوام کی نظروں سے گر رہے ہیں: رانا ثناء اللہ
(ن )لیگ کے صوبائی صدر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''حکمران عوام کی نظروں سے گر رہے ہیں‘‘ اور اگر میں اپنے اثاثوں کی منی ٹریل نہ دے سکا تو شدید خطرہ ہے کہ کہیں میں بھی عوام کی نظروں سے نہ گر جائوں ‘جبکہ ہیروئن کیس میں بھی کرتے گرتے بچا ہوں‘ کیونکہ گرنے سے چوٹ تو لگ سکتی ہے؛ اگرچہ اس میں بھی فی الحال صرف ضمانت ہوئی ہے اور اصل کیس تو ابھی باقی ہے ؛ چنانچہ میں عدالت میں بھی یہی شعر پڑھوں گا؎:
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
اور‘ ابھی یہ گرنا‘ سنبھلنا چلتا ہی رہے گا‘ کیونکہ ماڈل ٹائون والا کیس تو ایسا ہے کہ اس میں منہ کے بل گرنے کا پورا پورا امکان موجود ہے‘ جس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر وقت ہیلمٹ پہنے رہا کروں ‘کیونکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہرمیڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں خانہ پُری کے لیے یہ غزل:
اب یہ اتنا تو کر ہی سکتا ہے
دل ترے بعد بھی دھڑکتا ہے
صرف خیرات ہی نہیں دیتا
وہ مرا ہاتھ بھی جھٹکتا ہے
یہ لہو تو رواں دواں ہے‘ مگر
پھر بھی سینے میں کچھ اٹکتا ہے
کہیں پہنچے گا یہ مسافرِ خواب
راستوں میں ابھی بھٹکتا ہے
بادلوں میں بھی شکل بنتی ہے
کچھ ہوائوں میں بھی جھلکتا ہے
ابھی مایوس بھی نہیں ہونا 
یہ اندھیرا ابھی چمکتا ہے
ہے خزاں بھی بہار میں شامل
پتّا پتّا پڑا مہکتا ہے
شعر کہتا ہوں میں تو وہ اُس پر
کوئی شے اور بھی چھڑکتا ہے
ہوں وہ پیمانہ جو ظفرؔ کب سے
صاف خالی ہے اور چھلکتا ہے
آج کا مقطع
دُور ہے سبزہ گاہِ معنی ‘ظفرؔ
ابھی الفاظ کا یہ ریوڑ ہانک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں