عمران خان‘ مولانا کے خلاف بیان دینے
سے پہلے آئینہ دیکھتے: شہبازشریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان‘ مولانا کیخلاف بیان دینے سے پہلے آئینہ دیکھتے‘‘ جبکہ میں بھی جب آئینہ دیکھتا ہوں تو مجھ سے اپنی شکل پہچانی ہی نہیں جاتی اور ایسے لگتا ہے کہ لندن آ کر ہر شخص کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ واپس آنے کیلئے تیار اس لیے نہیں ہوتا کہ اب کون اپنا سا منہ لے کر واپس جائے‘ کیونکہ جو منہ میں لے کر آیا تھا اس کا کہیں نام و نشان تک نہیں ملتا اور آئینہ دیکھنے پر ایک اور ہی شکل نظر آ رہی ہوتی ہے ‘جبکہ وطن میں‘ میںنے اپنا کوئی بیان‘ غلط ہونے پر اپنا نام تبدیل کرنے کی پیشکش کی تھی اور مجھے کم و بیش 5 سو بار اپنا نام تبدیل کرنا پڑا تھا؛ حتیٰ کہ خود مجھے اپنا اصل نام بھول گیا تھا اور نیا نام رکھتا تھا ‘وہ ابھی یاد ہونے لگتا تھا کہ ایک اور نام رکھنا پڑ جاتا تھا؛ حتیٰ کہ نام ہی ختم ہو گئے تھے اور میں نے نام کی جگہ نمبر اختیار کرنا شروع کر دیئے تھے کہ آخر نام میں کیا رکھا ہے‘ وغیرہ غیرہ۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مولانا سے پوچھیں کس کی یقین دہانی
پر دھرنا ختم کیا گیا: عبدالغفور حیدری
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ''مولانا سے پوچھیں کس کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کیا گیا‘‘ وہ ہمیں تو کچھ نہیں بتاتے اور ہمارا خیال ہے کہ اس لیے نہیں بتاتے کہ انہوں نے کسی کے کہنے کے بغیر اور خود ہی دھرنا ختم کر دیا تھا اور یوں ہمیں بھی شرمندگی سے دو چار کر دیا‘ جبکہ ہمیں مولانا سے یہ توقع ہرگز نہیں تھی کہ وہ ہم سب کو بیچ میں ہی چھوڑ کر رفو چکر ہو جائیں گے اور ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے‘ اور اب وہ دوسری چھوٹی اپوزیشن کی پارٹیوں کو ورغلا کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں ‘تا کہ ان کی رہی سہی ساکھ بھی مٹی میں ملا دیں ‘ نیز مولانا چونکہ ہمیشہ ضرورت مند رہتے ہیں‘ اس لیے ان کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آتی ہیں‘ لیکن آدمی کو دوسروں کی عزت اور وقار ہی کا خیال کر لینا چاہیے‘ ورنہ پیسے تو انہیں گاہے بگاہے اِدھر اُدھر سے آ ہی جاتے ہیں اور اگر وہ ہم سے چوری چوری حلوہ ذرا کم کھایا کریں تو اُن کی ضروریات میں کافی کمی آ سکتی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
سیاسی تبدیلیوں کا موسم آنے والا ہے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''سیاسی تبدیلیوں کا موسم آنے والا ہے‘‘ کیونکہ حکومت کے جو ارادے نظر آ رہے ہیں‘ ان کے نتیجے میں آندھیوں اور جھکّڑوں کا ایک سلسلہ شروع ہونے کا خدشہ ہو گیا ہے ‘جس سے کئی قد آور درخت جڑ سے اُکھڑ بھی سکتے ہیں ‘جبکہ میری تو جڑیں پہلے ہی بہت کمزور واقع ہوئی ہیں اور بعض اوقات تو لگتا ہے کہ یہ باقاعدہ فساد کی جڑیں ہیں‘ اوپر سے والد صاحب لندن میں جا کر بیٹھ گئے ہیں اور مریم آپا کے لندن جانے کے امکانات روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں‘ جو اپنی جگہ پر ایک مایوس کن صورتحال ہے اور ایسا لگتا ہے کہ میرے لیے میدان صاف ہونے کی بات دل ہی میں رہ جائے گی ۔ آپ اگلے روز لاہور میں عدالت میں پیشی کے موقعے پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت ملک کو بحرانوں سے نکال کر
ہی دم لے گی: غلام محی الدین دیوان
تحریک انصاف شمالی لاہور کے صدر اور کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن غلام محی الدین دیوان نے کہا ہے کہ ''حکومت ملک کو بحرانوں سے نکال کر ہی دم لے گی‘‘ اور اس وقت تک دم روکے رکھے گی ؛ اگرچہ زندہ رہنے کیلئے سانس لینا بہت ضروری ہے ‘لیکن ہماری حکومت‘ ملک کیلئے بڑی سے بڑی قربانی بھی دے سکتی ہے ‘کیونکہ ملک نے بھی تو اسے تسلیم کر کے کوئی چھوٹی قربانی نہیں دی ہے اور اس کے نتائج بھی بھگت رہا ہے‘ جبکہ ملک ہمارے لیے ایک مجسم بحران کی صورت اختیار کر چکا‘ جو کافی حد تک حیرت انگیز بھی ہے اور اس سے ہم سبق بھی سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جہاں حکمرانی سے متعلقہ دوسری چیزیں سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ان میں یہ حیرت بھی بطور خاص قابلِ ذکر ہے؛ اگرچہ وزیراعظم عمران خان کو آٹا اور چینی سمیت جملہ مافیاز کا اچھی طرح سے علم ہے‘ لیکن وہ محض اپنی رحمدلی کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
یوں ہی کبھی سن لیا کرو بات ہماری
ویسے کوئی کم بھی نہیں خدمات ہماری
لگتا ہے کہ اُس شوخ کی صحبت کے علاوہ
کم ہو ہی نہیں پائیں گی حاجات ہماری
جس رات مہکتی ہیں کسی رات کی یادیں
اس رات گزرتی ہی نہیں رات ہماری
اب اپنی خبر بھی نہیں‘ کیا تھا وہ زمانہ
جب خود ہی خبر رکھتے تھے حالات ہماری
تنہا کبھی اتنے بھی نہیں تھے کہ سراسر
خود سے ہی جدا ہو گئی ہے ذات ہماری
یہ سُوکھی ہوئی گھاس ترستی ہے شب و روز
ہوتی ہے کہیں اور ہی برسات ہماری
گھٹتے چلے جاتے ہیں وسائل تو ہمارے
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بہتات ہماری
ہم نے بھی گلے خود ہی لگا رکھا ہے ان کو
جاتی ہی نہیں چھوڑ کے آفات ہماری
سارے ہی‘ ظفرؔ کام اٹھا رکھے ہیں اس پر
کب ہوتی ہے اب دیکھیں ملاقات ہماری
آج کا مطلع
دل کے اندر جی سکتی ہے‘ مر سکتی ہے
خواہش خود مختار ہے‘ کچھ بھی کر سکتی ہے