"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور نذیرؔ قیصر کی تازہ غزل

نواز شریف نے کھیل کے معیاری میدان بنائے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے کھیل کے معیاری میدان بنائے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی معیاری امپائر بھی کھڑے کرنے کا انتظام کیا‘ جو انہیں آئوٹ ہونے سے بچاتے تھے ‘جس سے وہ ہمیشہ ناٹ آئوٹ رہتے تھے اور اگر کوئی امپائر غلطی سے انہیں آئوٹ قرار دے بھی دیتا تو وہ اسے مذاق سمجھ کر کریز پر موجود رہتے تھے اور بعد میں اسے آئوٹ کرنے کا مزہ بھی چکھاتے تھے۔ اس کے علاوہ نواز شریف نے عوام کے جذبات سے کھیلنے کے بھی کافی میدان بنائے‘ جن میں وہ پوری ٹیم کا کردار خودی ادا کرتے تھے اور جس میں وہ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا کھیل بڑے شوق سے کھیلا کرتے اور بالآخر وہ ''ووٹ کو عزت‘‘ نہ ملنے کا داغ اپنے سینے پر لیے لندن آ گئے اور اب اپنی صحت کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں ۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مہنگائی سے تنگ عوام‘ بلاول بھٹو کے ساتھ
کھڑے ہوں گے: مصطفی نواز کھوکھر
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ ''مہنگائی سے تنگ عوام‘ بلاول بھٹو کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘‘ تا کہ ان سے گن گن کر بدلے لے سکیں کہ سندھ میں کمر توڑ مہنگائی کے وہ خود ذمہ دار ہیں اور لوگوں کو نظر انداز کر صرف اپنی خوشحالی میں لگے ہوئے ہیں؛ حالانکہ عوامی لیڈر ہونے کے ناتے وہ بھی عوام ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں بھی اپنی خوشحالی کو بڑھانے کا پورا پورا حق حاصل ہے؛ اگرچہ اس خوشحالی کے نتیجہ میں صورت ِحال یہ ہو چکی ہے کہ ان کے سرکاری مہمان خانے میں جانے کے بعد‘ جو اب یقینی ہو گیا ہے‘ آصفہ بھٹو کو میدان میں لانے کا پروگرام بنا لیا گیا ہے‘ کیونکہ نیب کی انتقامی کارروائی ان کے بغیر مکمل نہیں ہو رہی ؛حالانکہ اس سے پہلے اسے یہ کارروائی مکمل کرنے کا کبھی خیال نہیں آیا اور آتا بھی کیسے؟ کیونکہ مقدمات کا ریکارڈ یا تو گُم ہو جاتا تھا یا جل کر خاکستر ہو جایا کرتا تھا ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دیانتدار قیادت صرف جماعت اسلامی مہیا کر سکتی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''دیانتدار قیادت صرف جماعت اسلامی مہیا کر سکتی ہے‘‘ اور اگر مجھے روزانہ بیان دینے کی عادت نہ لگی ہو تو میں یہ قیادت بخوبی مہیا کر سکتا ہوں‘ اس لیے ملک کو ایسی قیادت کی تلاش کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ بلکہ یہ ایک فون کال کے فاصلے پر موجود ہے‘ بلکہ محض ایک اشارہ ہی کافی ہوگا؛ اگرچہ اشارے کرنا کوئی اچھی بات نہیں‘ کیونکہ اس میں مبہم اشارے بھی شامل ہوتے ہیں‘ تاہم ایک نیک مقصد کے لیے ہر طرح کے اشارے جائز ہیں اور خاکسار کسی بھی طرح کے اشاروں کو بخوبی سمجھتا ہے‘ تاہم فضول قسم کے اشاروں پر پابندی عائد ہونی چاہیے‘ جبکہ میں قیادت مہیا کرتے ہی ایسے اشاروں پر پابندی عائد کر دوں گا‘ بیشک مجھے جیسے بھی اشاروں سے مدعو کیا جائے ‘کیونکہ مقصد اگر نیک ہو تو ہر چیز نیک ہو جایا کرتی ہے‘ اس لیے اس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے‘ کیونکہ انت بھلا ہی بھلا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز جعفر آباد میں اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیے سے خطاب کر رہے تھے۔
مولانافضل الرحمن کے مارچ میں اپوزیشن 
نے شرکت کر کے کامیاب بنایا: رانا تنویر
نواز لیگ کے رہنما پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئر مین رانا تنویر حسین ایم این اے نے کہا ہے کہ ''مولانافضل الرحمن کے مارچ میں اپوزیشن نے شرکت کر کے کامیاب بنایا‘‘ حتیٰ کہ اس کامیابی سے مولانا منہ چھپائے پھرتے ہیں اور انصاف کی بات بھی یہی ہے کہ اس دوران مولاناآگے نکل رہے تھے اور ہم دونوں بڑی پارٹیاں بہت پیچھے رہ گئی تھیں۔ اس لیے ہم نے اپنی علامتی شرکت سے مارچ کو کامیاب بنا کر رکھ دیا اور اب وہ چھوٹی پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملائے پھرتے ہیں‘ جبکہ مولانا کو معلوم نہیں کہ وہ بھی مولانا کے ساتھ وہی سلوک کریں گی ‘جو ہم نے کیا تھا؛ اگرچہ انہوں نے ہمارے لیے بھی کہا ہے کہ ان کے دروازے ہمارے لیے کھلے ہیں ‘لیکن کیا کیا جائے‘ ادھر حکومت کا دروازہ بھی ہمارے لیے کھلتا جا رہا ہے کہ پلی بارگین کر کے اپنی گلو خلاصی کروا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ماہنامہ ''الحمراء‘‘ کے تازہ شمارہ سے صاحب ِ طرز شاعر نذیر قیصر کی غزل پیش خدمت ہے:
پانی پڑا ہوا کہیں دانے پڑے ہوئے
مٹی کے برتنوں میں خزانے پڑے ہوئے
یہ شہر سو رہا ہے پرندوں کے شور میں
اس شہر میں ہیں خواب پُرانے پڑے ہوئے
ٹھہرا ہوا ہے چاند ترے انتظار میں
کچھ پھول کھل رہے ہیں سرہانے پڑے ہوئے
خالی پڑا ہوا ہے محل سو کنال کا
ٹیبل پہ سو طرح کے ہیں کھانے پڑے ہوئے
فٹ پاتھ پر پرانی کتابیں پڑی ہوئیں
پیروں میں آنے والے زمانے پڑے ہوئے
بکھرے ہیں فاختائوں کے پر جلتی دھول میں
ٹینکوں کی راکھ میں ہیں ترانے پڑے ہوئے
برسوں کے بعد ایک حویلی کے در کھُلے
روشن ہوئے چراغ پرانے پڑے ہوئے
مفلس نہیں ہوا میں‘ ابھی میری جیب میں
غزلیں پڑی ہوئی ہیں فسانے پڑے ہوئے
قیصرؔ وہ خوش نصیب ہوں میں جس کی میز پر
غالبؔ پڑے ہوئے ہیں یگانےؔ پڑے ہوئے
آج کا مطلع
آسماں چاہتے ہیں اور نہ زمیں چاہتے ہیں
خوش رہیں‘ آپ سے ہم کچھ بھی نہیں چاہتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں