فیصلے مشاورت سے کرتے ہیں‘ عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''فیصلے مشاورت سے کرتے ہیں‘ عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ اور جب سے عوام کو یہ معلوم ہوا ہے‘ انہیں صحیح معنوں میں اپنی فکر پڑ گئی ہے‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم خود کچھ نہیں کرتے‘ ان کو بھی کچھ نہیں کرنے دیں گے‘ جبکہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ ہم کچھ کرنے کا ارادہ ضرور رکھتے ہیں اور ہر کام کا پہلے ارادہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے انجام دیا جاتا ہے؛ اگرچہ ایسے کام کا بھی ارادہ کریں تو اس کا نتیجہ غلط ہی نکلتا ہے‘ جبکہ غلط نتائج کا سامنا کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ کچھ کیا ہی نہ جائے‘ مثلاً؛ چوریوں اور ڈکیتیوں کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے تھے‘ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ختم یا کم ہونے کی بجائے ان میں اضافہ ہوگیا۔ آپ اگلے روز ایرانی سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
بلاول کی نواز شریف کے بارے سلیکٹڈ کی بات غلط نہیں: کائرہ
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''بلاول کی نواز شریف کے بارے سلیکٹڈ کی بات غلط نہیں‘‘ بلکہ ان کی کوئی بات بھی غلط نہیں ہوتی‘ جبکہ اس سے پہلے زرداری صاحب کی کوئی بات غلط نہیں ہوتی تھی‘ ماسوائے جعلی اکائونٹس کے‘ کیونکہ صرف اکائونٹس جعلی تھے‘ خود بلاول مکمل طور پر اصلی تھے اور اگر اندر وغیرہ ہو گئے‘ تب بھی اصلی ہی رہیں گے‘ جبکہ ہم میں سے کوئی بھی جعلی نہیں‘کیونکہ سب کی اصلیت کھل کر سامنے آ چکی ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جائے گا‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا رہے گا اور ہمارے قائدین نے جو اپنے عہد اقتدار میں دودھ کی نہریں بہائی تھیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ وہ نہریں انہی کے کام بھی آئیں‘ کیونکہ عوام کو دودھ پینے کی عادت ہی نہیں تھی اور ہم ان کی عادتیں خراب نہیں کرنا چاہتے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت نواز شریف کی صحت پر سیاست کر رہی ہے: عطا تارڑ
نواز لیگ کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ''حکومت نواز شریف کی صحت پر حسب ِعادت سیاست کر رہی ہے‘‘ حالانکہ نواز شریف نے کبھی سیاست نہیں کی‘ کیونکہ وہ تو سیدھے سادے تاجر تھے اور تاجری کرنے کے لیے ہی آئے تھے‘ جو انہوں نے جی بھر کے کر لی‘ بلکہ ابھی کچھ اور بھی کرنا چاہتے تھے کہ پانامہ لیکس نے آ لیا اور ساری تجارت دھری کی دھری رہ گئی‘ جس کے لیے اب اگرچہ شہباز شریف تیاریاں کر رہے ہیں‘ لیکن وہ اپنے حصے کی‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ تجارت کر چکے ہیں‘ اس لیے انہیں اب کسی اور کام کی طرف توجہ دینی چاہیے‘ کیونکہ نیب نے دخل در معقولات شروع کر رکھا ہے‘ جس سے اس تجارت میں گھاٹا بھی پڑ سکتا ہے‘ کیونکہ تجارت بھی وہ اپنے ہی طریقے سے کیا کرتے تھے اور سارا منافع ایک پر اسرار طریقے سے ملک سے باہر چلا جاتا تھا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل میں شریک ِگفتگو تھے۔
فواد ‘ نواز شریف کے کندھے پر بندوق رکھ کر نہ چلائیں: طلال
نواز لیگ کے رہنما اور سابق وزیر مملکت طلال چودھری نے کہا ہے کہ ''فواد‘ نواز شریف کے کندھے پر بندوق رکھ کر نہ چلائیں‘‘ کیونکہ ایک تو ان کا کندھا خاصا کمزور ہے اور دوسرے انہوں نے اس پر پہلوانی کا گُرز رکھا ہوا ہے‘ جو بجائے خود خاصا بھاری ہوتا ہے‘ اس لیے اب تو وہ کندھے سے کندھا ملا کر بھی نہیں چل سکتے۔ اس لیے فواد چودھری‘ اگر چاہیں تو شہباز شریف کا کندھا استعمال کر سکتے ہیں اور جس کے لیے انہیں لندن جانا پڑے گا‘ جہاں انہوں نے اپنا کندھا کھُلا چھوڑ رکھا ہے‘ اول تو ان کے لیے بہتر ہے کہ تیر وغیرہ چلا لیا کریں ‘بلکہ اگر اچھی سی غلیل خرید لیں تو چاند ماری کا شوق پورا کر سکتے ہیں اور حکومت کے جو حالات چل رہے ہیں‘ انہیں غلیل وغیرہ پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا؛ اگرچہ ہمارے حالات ان سے بھی بڑھ کر دگرگوں ہیں اور ایک بار پھر مولانا سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں عامرؔ سہیل کی یہ غزل:
شہر کے شہر کو ہمراہ لیے پھرتے ہیں
ہم ترے حسن سے تنخواہ لیے پھرتے ہیں
شہر جل سکتے ہیں‘ تم دیر نہ باہر پھرنا
سانس رک سکتی ہے‘ افواہ لیے پھرتے ہیں
ہم جو پتھر کے تمہیں لگتے ہیں پتھر کے نہیں
خون میں درد کی درگاہ لیے پھرتے ہیں
آنکھ سے کیسی ہوس‘ کیسی ہوس گرتی ہے
کون سے بُت ہیں جنہیں شاہ لیے پھرتے ہیں
گوشہ چشم میں جو معجزے بھر سکتے تھے
ربِّ عیسیٰ کی قسم کاہ لیے پھرتے ہیں
راہ میں مسجدیں آتی ہیں کہ مندر کہ کلس
اک پری زاد کو بے راہ لیے پھرتے ہیں
مورنی ہم ترے نخروں کو دعا دیتے تھے
اور اب ہم کو بھی بدخواہ لیے پھرتے ہیں
ہم تری دید تری دید کے خیراتی ہیں
کاسہ کاسہ جو شبِ ماہ لیے پھرتے ہیں
کیسا پانی سے ڈرے ہیں کہ ذرا ہوش نہیں
کشتیاں چھوڑ کے ملّاح لیے پھرتے ہیں
ہم پجاری تھے ترے ہم جو پجاری تھے ترے
اب محبت کی جگہ آہ لیے پھرتے ہیں
جیسے لاٹھی سے کوئی ہانک رہا ہو عامرؔ
نیند میں عالمِ ارواح لیے پھرتے ہیں
آج کا مقطع
ظفرؔ ظاہر میں جو اک آدمی لگتا ہے‘ دراصل
ہجوم ِ خواب ہے‘ سارے کا سارا جمگھٹا ہے