میں اور کابینہ وزیرِ قانون کے ساتھ کھڑے ہیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''میں اور کابینہ وزیر قانون فروغ نسیم کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ اور معلوم نہیں کب تک کھڑے رہنا پڑے کیونکہ میں تو تقاضائے عمر کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑا بھی نہیں رہ سکتا جبکہ وزیر موصوف اِدھر اُدھر موجیں کرتے پھرتے ہیں اور ادھر کھڑے کھڑے ہماری ٹانگیں جواب دے رہی ہیں حالانکہ ہم نے ان سے کوئی سوال ہی نہیں کیا تھا‘ لیکن اس کے باوجود وہ جواب دے رہی ہیں جبکہ کابینہ کے معزز اراکین کی حالت مجھ سے بھی پتلی ہے اور ان معززین کی ٹانگیں کھڑے کھڑے ویسے ہی اکڑ گئی ہیں اور اب وہ ہلنے جلنے کے قابل ہی نہیں رہے، جبکہ ہم نے توبہ کر لی ہے کہ آئندہ کسی کے ساتھ کھڑے ہونے کی غلطی ہرگز نہیں کریں گے بلکہ ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دیں گے کہ بیٹھے بیٹھے تو سویا بھی جا سکتا ہے حالانکہ یہ جوڑوں اور گٹوں گوڈوں میں بیٹھنے سے کچھ زیادہ مختلف چیز نہیں ہے ‘جبکہ پسندیدہ ترین کام لیٹنا ہے کہ خوابِ خرگوش کے مزے بھی لیے جا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک جائزہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت نے کورونا وائرس کے سدباب کیلئے کچھ نہیں کیا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت نے کورونا وائرس کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کیا‘‘ حتیٰ کہ وہ میرے لیے بھی کچھ نہیں کر سکی جو روزانہ بیان دے دے کر حکومت کو شرمندہ کر رہا ہوں اور خود بھی شرمسار ہو رہا ہوںحالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ مجھے کسی کام پر لگاتی لیکن نہ وہ خود کچھ کر رہی ہے نہ مجھے کچھ کرنے کو کہہ رہی ہے اور یہ حسرت شاید میں اپنے ساتھ لے جائوں کہ کاش کچھ کر سکتا، اگرچہ شاعر نے تو کہہ رکھا ہے کہ ؎
بیکار مباش کچھ کیا کر/ بخیے ہی ادھیڑ کر سیا کر
جبکہ میں بخیے ادھیڑ تو سکتا ہوں لیکن سینا پرونا مجھے ہرگز نہیں آتا۔ آپ اگلے روزپشاور میں ارکان سے خطاب کر رہے تھے۔
معیشت کو نقصان پہنچانے والوں کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے: حمزہ
پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''معیشت کو نقصان پہنچانے والے حکمرانوں کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے‘‘ اور یہ پریشان ہونے کی بجائے ان ہچکولوں کے مزے لے رہے ہیں جیسے جھولا جھول رہے ہوں‘ جبکہ ہماری کشتی جب ہچکولے کھا رہی تھی تو ہمارا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا اور یہ فقط محاورے کی بات نہیں ہے اور جتنا نقصان ہمیں محاوروں نے پہنچایا ہے شاید احتساب نے بھی نہ پہنچایا ہو، اگرچہ ہوا یہ تھا کہ ہماری کشتی ہچکولے کھانے کے بعد ڈوب بھی گئی تھی حالانکہ ہماری کشتی کے ملاح تایا جان تھے لیکن ان کا اپنا وزن ہی اتنا تھا کہ اس نے ڈوبنا ہی تھا اور اب پانی کی تہہ میں بھی اس کا کوئی نام و نشان دستیاب نہیں ہو رہا‘ جبکہ اس کا کوئی کوئی تختہ سطحِ آب پر تیرتا نظر آ جاتا ہے جبکہ ایک آدھ چپّو بھی کبھی کبھار دکھائی دے جاتا ہے۔تایا جان لندن میں اپنا وزن کم کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ اور کوئی کشتی ہے ہی نہیں جس کے ڈوبنے کا خطرہ ہو۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
معترضینِ اقبال اور ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی
پروفیسر ریاض احمد کی تصنیف ہے جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے چھاپا ہے۔ پسِ سرورق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تحریر کردہ ہے جبکہ اندرون سرورق جبار مرزا کی رائے درج کی گئی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم سابق صدر شعبۂ اُردو آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی، مظفر آباد کے مطابق ریاض احمد نے '' معترضینِ اقبال اور ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی ‘‘ میں اقبال پر اٹھائے گئے اعتراضات کا عمیق مطالعہ پیش کیا ہے اور ممتاز اقبال شناس پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی پر تجزیاتی اور تجرباتی انداز میں بحث کی ہے۔ ریاض احمد ان خوش قسمت سکالرز میں سے ہیں جن کا سندی مقالہ کتابی صورت میں اتنی جلدی شائع ہو رہا ہے۔ اس کے لیے ریاض احمد مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کی عرق ریزی کام آئی اور ایک معیاری کام کتابی شکل میں شائع ہوا۔ ریاض احمد کا اسلوب عمدہ ہے جو تنقیدی بھی ہے اور تجزیاتی بھی اور انہوں نے اپنی اس کتاب میں دونوں اسالیب کو خوبصورتی کے ساتھ برتا ہے۔ کتاب بڑے سائز پر عمدہ گیٹ اپ میں شائع کی گئی ہے جو علمی و ادبی حلقوں میں بطورِ خاص پسند کی جائے گی۔
اور اب ابرار احمد کے شعری مجموعے ''موہوم کی مہک‘‘ میں سے یہ نظم:
کسی انتظار کی جانب
ازل سے چلتے رہے ہیں مگر کھڑے ہیں وہیں
دیارِ دیدہ و دل میں وہی دھند لکا ہے
اسی زمیں پہ قدم، سر پہ آسماں ہے وہی
کہیں پہ دور کہیں ہم کو جا کے ملنا تھا
کسی خیال سے، اک خوابِ خوش نما کی طرف
نکلتے جانا تھا ٹوٹے ہوئے خمار کے ساتھ
نہ جانے کیا تھا جسے ڈھونڈنے نکلنا تھا
رہِ وجود میں اڑتے ہوئے غبار کے ساتھ
رہے اسیرِ در و بامِ زندگی ہر دم
وہی جو خستہ تھے معمولِ روز و شب کی طرح
بس ایک چاک پہ ہم گھومتے، اُدھڑتے رہے
سو اب خرام کریں راہِ معذرت پہ کہیں
تھکن سے بیٹھ رہیں کنجِ عافیت میں کہیں
کہیں سے توڑ دیں دیوارِ ایستادہ کو
جدھر کو جا نہیں پائے، اُدھر نکل جائیں
جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا
جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں
جو ہم پہ کھلتا نہیں، اُس حصار کی جانب
کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب!
آج کا
اور بھی اب توضروری ہے ظفر میرے لیے
اپنے اندر کے اندھیرے کا ستارہ ہونا