مہنگائی میں کمی کیلئے اقدامات ‘ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مہنگائی میں کمی کیلئے اقدامات جاری رکھیں گے‘ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا‘‘ جبکہ بھوکا تو ویسے بھی نہیں سویا جاتا‘ کیونکہ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوں تو وہ سونے ہی کب دیتے ہیں ‘اس لیے ہمیں یقین ہے کہ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا‘ کیونکہ اس حالت میں وہ کوشش بھی کرے تو نہیں سو سکتا‘ تاہم اسے کوشش تو کرنی چاہیے‘ کیونکہ وہ خواب میں تو روٹی کھا ہی سکتا ہے‘ نیز اللہ نے رات بھوکوں ہی کیلئے بنائی ہے‘ تا کہ وہ خواب میں پیٹ بھر کر کھا سکیں اور اس کا شکر ادا کریں‘ جبکہ صبر کے ساتھ شکر ویسے بھی بہت ضروری ہے کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس صورت میں اسے یہ پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں رہتی کہ چولی کے پیچھے کیا ہے؟ اگرچہ یہ انترا ہی بالکل بے سروپا اور غلط ہے‘ جبکہ بھوکے کو حساب کتاب پر بھی عبور رہتا ہے کہ وہ دو اور دو کی جمع چار روٹیاں ہی بتاتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران مہنگائی سے عوام کو قتل کر کے معصوم بنتے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران مہنگائی سے عوام کو قتل کر کے معصوم بنتے ہیں‘‘ جبکہ ہم نے یہ ‘ بلکہ اس سے بھی بڑے بڑے کمالات دکھائے‘ لیکن معصوم بننے کی کوشش نہیں کی ‘بلکہ پوری دیدہ دلیری سے دندناتے پھر رہے ہیں‘ جبکہ بھائی صاحب نے لفٹ کا استعمال بالکل ہی چھوڑ دیا ہے اور چار منزلیں سیڑھیوں پر بھاگتے ہوئے چڑھ جاتے ہیں اور ہم انہیں حیرت سے دیکھتے رہتے ہیں‘ اور یہ سب پرہیزی کھانوں کی کارستانی ہے ‘بلکہ ایک آدھ منزل کو تو وہ باہر سے ہائی جمپ لگا کر بھی چڑھ سکتے ہیں‘ بلکہ حقیقی پرہیز کی تلقین کرنے والے ڈاکٹر بھی ان کی دستبرد سے محفوظ نہیں اور وہ بھی اپنے بچائو کے لیے ہر وقت ہیلمٹ پہنے رہتے ہیں اور مضروب ڈاکٹروں سے معذرت بھی کرتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
معیشت کا قتل اور جمہوریت پر حملہ کیا جا رہا ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''معیشت کا قتل اور جمہوریت پر حملہ کیا جا رہا ہے‘‘ کیونکہ کرپشن پر حملہ بجائے خود جمہوریت پر حملہ ہے کہ جمہوریت کرپشن کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور اگر چل سکتی ہوتی تو موجودہ حکومت ہی اسے چلا کر دکھا دیتی‘ کیونکہ روپے کو گردش کرتے رہنا چاہیے‘ ورنہ یہ منجمد ہو کر رہ جائے گا اور اسی لیے والد صاحب کو سب سیاستدان جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن تسلیم کرتے ہیں؛ اگرچہ میں بھی کوئی چھوٹا چیمپئن نہیں ہوں‘ لیکن میں نے اس پر کبھی غرور نہیں کیا اور نہ ہی اپنے اثاثوں پر کبھی ناز کیا ہے کہ یہ سب اللہ کی دین ہے ‘جو وہ اپنے نیک بندوں کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے؛ اگرچہ یہ نیک بندے اپنا خیال خود زیادہ بہتر طریقے سے رکھ سکتے ہیں 'جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ حکومت کو اپنے دیگر کاموں میں مطلوبہ سہولت میسر آ سکے ‘جو بجائے خودجمہوریت اور معیشت کا قتل ہے۔ آپ اگلے روز پریس کلب لاہور میں میٹ دی پریس سے خطاب کر رہے تھے۔
ایک دور تھا جب بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا تھا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ایک دور تھا جب بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا تھا‘‘ اور ہر طرف روپے کی ریل پیل ہو رہی تھی اور بڑے میاں صاحب خود ہی بلا کر میری مُٹھی گرم کر دیا کرتے تھے‘ کیونکہ پہلے وہ اپنی مٹھی گرم کر چکے ہوتے تھے ‘جبکہ خاکسار کی تو مٹھی کے ساتھ ساتھ داڑھ بھی گرم ہو جایا کرتی تھی اور یہ داڑھ بھی عقل داڑھ کے قریب ہی ہوتی ہے اور ساری کارستانیاں یہ عقل داڑھ ہی آدمی کو سکھاتی ہے‘ کیونکہ آدمی ماں کے پیٹ سے کچھ بھی سیکھ کر نہیں آتا‘ لیکن پیدائش کے بعد وہ ساری کسریں نکالتا ہے‘ اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر تقاضائے عمر کی وجہ سے باقی سارے دانت نکل بھی جائیں تو کم از کم عقل داڑھ ضرور باقی رہ جائے ‘کیونکہ اس کی ضرورت تو ماشاء اللہ آخری سانس تک برقرار رہتی ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
مآلِ ظلم کی فریاد بھی اسی کی تھی
غضب تو یہ ہے کہ ایجاد بھی اسی کی تھی
جدھر سے آئی تھی شاید اُدھر گئی ہو گی
پلٹ کے آئی نہیں یاد بھی اسی کی تھی
تو گویا میرا ہُنر بھی نہیں ہے اب میرا
کہ شعر جس پہ کہا داد بھی اسی کی تھی
اپنی طاقت سے سوا رنج اٹھائے ہوئے ہیں
بات بے بات ہر اک بات پہ ہنستے ہوئے لوگ
موت کو آخری درجے کی سزا کیسے کہوں
میں نے دیکھے ہیں بنا موت کے مرتے ہوئے لوگ
تم آ گئے تو خشوع و خضوع کا کیا ہو
میں انتظار عبادت سمجھ کر کرتا ہوں (نعیم ضرار)
کبھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے اسے
بھر کے دیکھا تو آنکھ بھر آئی (خواجہ عسکری حسن‘ ساہیوال)
اب محبت ہے کہاں اپنی جوان والی
ایک حسرت ہے وہی تازہ پرانی والی
یہ مرا خیمہ ہے‘ یہ خیمے کی تنہائی ہے
یہ میری چھیدی ہوئی مشک ہے پانی والی
آج کچھ لوگوں سے بادیدۂ تر محفل میں
داستاں اپنی سنی نقل مکانی والی (اسد اعوان)
آج کا مقطع
برباد ایک دن اسے ہونا ہی تھا ظفرؔ
یہ شہر جو کہ اہلِ وفا کے بغیر تھا