"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور نوید فدا ؔستی کی شاعری

کوئی فائل کسی محکمے میں بلا جواز نہیں رکنی چاہیے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''کوئی فائل کسی محکمے میں بلا جواز نہیں رکنی چاہیے‘‘ ماسوائے اس کے کہ ابھی اسے پہیے نہ لگے ہوں ‘کیونکہ پہیوں کے بغیر تو کوئی فائل ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی‘ کیونکہ فائل بھی ایک گاڑی کی طرح ہوتی ہے‘ جس کا کوئی ٹائر پنکچر ہو جائے تو اس صورت میں بھی آگے نہیں چل سکتی اور پنکچر شدہ ٹائر کو اتار کر اس کی جگہ سٹپنی لگانا پڑتی ہے‘ اسی طرح چلتی ہوئی فائل بھی اگر چلتے چلتے رک جائے تو اس کیلئے بھی سٹپنیاں درکار اور موجود ہوتی ہیں؛ چنانچہ سائل لوگ اپنے پیسے ساتھ لے کر ہی جاتے ہیں ‘ تاکہ فائل کو رکنا نہ پڑے اور یہی دستور ِزمانہ بھی ہے‘ جس میں ہم کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے‘ جبکہ ویسے بھی ہم بڑی تبدیلی لانے میں مصروف ہیں ‘جس کا ابھی تک تو کوئی اتا پتا معلوم نہیں‘ کیونکہ یہ اچانک ہی آ کر ہمارے سمیت سب کو حیران کر دے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
اثاثے فروخت نہیں کرنے دینگے‘ مزدور حصہ دار ہوگا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''اثاثے فروخت نہیں کرنے دینگے‘ مزدور صنعت میں حصہ دار ہوگا‘‘ او ہم اپنے دور میں مزدور کو صنعت میں حصہ دار نہیں بنا سکے تھے‘ کیونکہ ایسی باتیں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہی یاد آتی ہیں کہ سارا جھگڑا یادداشت کا ہے ‘جو اپوزیشن میں آ کر ہی تیز ہوتی ہے ‘کیونکہ حکومت میں ہوتے ہوئے ‘جو اصل کام ہوتا ہے‘ اس کی وجہ سے اور کوئی بات سوجھ ہی نہیں سکتی‘ اس لیے مزدوروں کو زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ اگر ہم ایک بار پھر حکومت میں آئے‘ جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں‘ تو یہ بات ہمیں پھر بھول جائے گی؛ اگرچہ ایک صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ مجھے سب سے پہلے خود پر سے کرپشن کا بوجھ اتارنا چاہیے؛ حالانکہ یہ بوجھ اگر میں نے پوری خوشدلی سے اٹھایا ہوا ہے اور یہ مجھے کچھ نہیں کہتا تو دوسروں کو اس پر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت مخالف تحریک کیلئے تیار ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت مخالف تحریک کے لیے تیار ہیں‘‘ کیونکہ اگر نواز شریف کا علاج ہسپتال کے بغیر ہو سکتا ہے تو لندن میں بیٹھ کر حکومت مخالف تحریک میں کیوں شامل نہیں ہو سکتے؟ اس لیے مولانا تسلی رکھیں‘ ہم ان کی تحریک میں پورے زور و شور سے حصہ لیں گے اور اگر زور سے نہ لے سکے تو شور ایسا مچائیں گے کہ پوری دنیا سنے گی اور کانوں میں انگلیاں دبا لے گی ‘کیونکہ گھر میں بیٹھ کر شور مچانے کی مکمل آزادی ہے اور اس آزادی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے‘ کیونکہ ملک کے اندر شور مچانے والے ابھی کافی موجود ہیں اور جب وہ سارے اندر نہیں ہو جاتے‘ ان کے شور کو کوئی نہیں روک سکتا‘ جبکہ ذہن نشین رہے کہ بھائی صاحب یہاں پورے مزے میں ہیں ۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
فتنۂ ابلاغ
یہ ممتاز اور سینئر صحافی اے آر خالد کی تصنیف ہے ‘جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کیا ہے۔ انتساب سابق امام کعبہ شیخ صالح ابی طالب کے نام ہے‘ اسے ''صحافت نامہ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کا اصل موضوع شعبۂ صحافت میں جو غلط روایات راہ پا گئی ہیں‘ ان کا پردہ چاک کرنا ہے۔ آپ ایک طویل عرصہ تک ملک کے متعدد انگریزی اور اردو روزناموں میں کالم آرائی کرتے رہے ہیں ‘جو سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سیاسی و سماجی موضوعات پر بھی وہ خامہ فرسائی کر چکے ہیں۔ اے آر خالد کی تحریر میں روانی اور شستگی ہے۔ ان کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا‘ جس کے مطابق؛ جنرل (ر) ایوب خان کا دور ملکی ترقی اور خوشحالی کا ایک مثالی زمانہ تھا۔ پس سرورق مصنف کی تصویر کے علاوہ ناشر علامہ عبدالستار عاصم کی جانب سے تعارفی نوٹ ہے ‘جبکہ اندرونِ سرورق کتاب کے بارے میں مختلف روزناموں کی تعریفی آراء درج کی گئی ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے‘ جسے ایک ہی سانس میں پڑھ جانے کو جی چاہتا ہے۔
اور‘ اب کہوٹہ سے نوید فداؔ ستی کی شاعری:
عشق میں لا مکاں سے گزرا ہوں
یا کہیں درمیاں سے گزرا ہوں
بیٹھے بیٹھے زمین پر اس دن
دوست میں آسماں سے گزرا ہوں
یوں گزارا گیا ہے تجھ سے مجھے
جیسے میں کہکشاں سے گزرا ہوں
خاک تعظیم کو اٹھی ہے مرے
دشت میں مَیں جہاں سے گزرا ہوں
مجھ کو کیا علم ہو نشانے کا
تیر تھا اور کماں سے گزرا ہوں
اپنا افسانہ لے کے میں سر خاک
وقت کی داستاں سے گزرا ہوں
میں یقیں سے گزرنا چاہتا تھا
اور عکسِ گماں سے گزرا ہوں
خاک ہونے کا تب ہوا احساس
جب فداؔ خاکداں سے گزرا ہوں
کبھی تو سامنے مجھ کو خدا کے لے جانا
اے موجِ عشق مجھے مجھ سے آ کے لے جانا 
مرا بھی دل ہے مثالِ چراغِ طاق اے دوست
مجھے بھی ساتھ کسی دن ہوا کے لے جانا
آج کا مقطع
ایک سناٹا سا ہے چھایا ہوا ہر سو‘ ظفرؔ
اور اس میں یہ ہماری آخری آواز ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں