"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن ‘ درستی اور ضمیرؔ طالب کی شاعری

سازشیں کرنے والے پہلے لوٹ مار کا حساب دیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''سازشیں کرنے والے پہلے لوٹ مار کا حساب دیں‘‘ کیونکہ سازشیں تو بعد میں بھی کی جا سکتی ہیں اور ہر کام اپنے وقت پر ہی اچھا لگتا ہے‘ جبکہ ہمارے ہاں تو ماشاء اللہ وقت اور بے وقت کا کوئی سوال ہی نہیں‘ کیونکہ کام کرنے کا وقت مقرر ہوتا ہے‘ نہ کرنے کا نہیں‘ اس لیے ادھر فراغت ہی فراغت ہے؛ البتہ ابھی فارغ البال نہیں ہوئے‘ کیونکہ ابھی ہم میں سے کسی کے بال جھڑنا شروع نہیں ہوئے اور اس سے بال بال بچے ہوئے ہیں ‘تاہم کچھ حضرات کے بال پہلے سے ہی ناکافی ہیں اور یہ وائرس دوسروں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے؛ چنانچہ اس وائرس سے بچنے کیلئے ان حضرات نے آپس میں ہاتھ ملانا بھی چھوڑ دیا ہے اور کہنی ملانے پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں جہانگیر ترین سے ملاقات کر رہے تھے۔
کارخانے نہ بنے تو پاگل خانے بنانا پڑیں گے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کارخانے نہ بنے تو پاگل خانے بنانا پڑیں گے‘‘ کیونکہ آدھا پاکستان تو میری روز روز کی تقریر سن کر اور پڑھ کر پہلے ہی نیم پاگل ہو چکا ‘ اس لیے بہتر ہے کہ کارخانوں سے بھی پہلے پاگل خانے بنانے کا اہتمام کیا جائے اور جب تک پاگل خانے تعمیر ہوں گے‘ تب تک پورا ملک ہی پاگل ہو چکا ہوگا ۔ماسوائے خاکسار کے‘ کیونکہ مجھ پر اپنی تقریر کا اثر ذرا کم ہی ہوتا ہے‘ بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ‘جبکہ ویسے بھی ضرورت محسوس کرتا تو میں تقریر میں ایک آدھ ناغہ ہی کر لیا کرتا؛ اگرچہ تقریر کیلئے ہوش وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی؛ البتہ سننے والوں کا ہوش اڑنے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سفید پوش طبقے سے پوچھیں وہ زندگی کس طرح گزار رہا ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سفید پوش طبقے سے پوچھیں وہ زندگی کس طرح گزار رہا ہے‘‘ جبکہ میں ان سے اس لیے نہیں پوچھتا کہ انہیں اس حالت کو پہنچانے میں ہمارا اپنا کردار بھی کسی سے کم نہیں‘ بلکہ مجھے حیرت ہے کہ یہ اس کے باوجود اپنی سفید پوشی کس طرح برقرار رکھے ہوئے ہے ‘کیونکہ اسے اس وقت نچلے طبقے میں ہونا چاہیے تھا اور جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کوششوں میں ضرور کوئی کمی رہ گئی ہے‘ تاہم‘ انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں‘ ہمیں اگر ایک بار موقعہ ملا‘ جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ‘ تو ہم انہیں بھی دوسروں کے برابر کر کے چھوڑیں گے‘ کیونکہ ہمیں تقسیم ہرگز پسند نہیں اور ہم مساوات کے قائل ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک قومی سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
اب سیاسی نہیں‘ ملکی بقا کی جنگ شروع ہو چکی ہے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب ِاختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''اب سیاسی نہیں‘ ملکی بقا کی جنگ شروع ہو چکی ہے‘‘ کیونکہ سیاسی جنگ تو ختم کر کے ہمارے بزرگ لندن میں جا بیٹھے ہیں اور اب وہاں بیٹھ کر ملکی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ‘جس میں وہ یقینا سرخرو ہوں گے ‘جیسے تایا جان انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ملک چھوڑنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اس جنگ میں شدت پیدا کرنے کے لیے وہاں مریم بی بی کا انتظار کر رہے ہیں‘ جبکہ ملکی بقا خود بڑی بے چینی سے ان کا انتظار کر رہی ہے‘ جبکہ ویسے بھی ملکی بقا کے لیے ان بزرگوں کا ملک چھوڑنا ضروری ہو گیا تھا‘ تاہم اگر کوئی کسر رہ گئی ہو تویہ دونوں وہاں بیٹھ کر پوری کر لیں گے اور اسی لیے واپس نہیں آ رہے ہیں کہ ملکی بقا کو ان کی واپسی سے پھر خطرات لاحق نہ ہو جائیں۔ آپ اگلے روز اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
ہمارے عزیز دوست اشفاق احمد ورک نے اپنے کالم میں گزشتہ روزایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے؎
مسائل اور تھے مگر دل کا آنا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
اس کے پہلے مصرعے میں ایک تو ''مگر‘‘ کی بجائے ''پر‘‘ ہے اور دوسرے ''آنا‘‘ کی بجائے ''جانا‘‘ ہے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیرؔ طالب کے کچھ اشعار:
کوئی آسانی بہم کرتا نہیں ویسے تو
گو مرا کام بھی دشوار نہیں کرتا ہے
وہ جو میری رضائی میں تھا ضمیرؔ
کہاں وہ بھی رسائی میں تھا ضمیرؔ
ہجر سے تو نکل چکا تھا‘ اب
فقط کی جدائی میں تھا ضمیرؔ
بس ایک گُل سے چراغاں تھا گلستان میں ضمیرؔ
اور اک ستارے سے مہکی ہوئی فضائیں تھیں
غلط اندازہ شور کرتا ہے
ہجر ہے تازہ‘ شور کرتا ہے
رات کو احتیاط سے آنا
دل کا دروازہ شور کرتا ہے
حسن اس کا ایک پانی کی طرح ہے
جس کو دیکھو تو گزر جاتا ہے سر سے
دیکھ سکتا میں اسے دُور تلک
پاس اتنا ابھی آیا ہی نہیں
اس نے آواز سنائی ہے ابھی
ابھی سنّاٹا سنایا ہی نہیں
اس قدم نے ہے تھکایا مجھ کو
جو قدم میں نے اٹھایا ہی نہیں
آج کا مقطع
جب کوچ کر گئے تو یہ جانیں گے تب ظفرؔ
یہ شہر تھا بس ایک ہمیں سے بھرا ہوا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں