پاکستان سیاسی جدوجہد سے عالمِ وجود میں آیا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پاکستان سیاسی جدوجہد سے عالمِ وجود میں آیا‘‘ اور یہ جدوجہد صرف تقریروں پر مشتمل تھی اور اگر قائداعظم ؒ‘روزانہ پے بہ پے تقریروں نہ کرتے تو یہ صرف ایک خواب ہو کر رہ جاتا اور ان تقریروں کا باقاعدہ حوالہ دیا جاتا ہے اور نا قدریٔ زمانہ کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ میری تقریروں کا کوئی حوالہ ہی نہیں دیتا اور یہ کام بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے ۔ اور اگر یہ ملک تقریروں سے معرضِ وجود میں آیا تھا تو تقریروں ہی سے اسے جملہ مسائل سے نجات دلائی جا سکتی ہے‘ لیکن کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ میری تقریروں سے مسائل حل ہونے کی بجائے ان میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور جس طرح جمہوریت کا علاج زیادہ جمہوریت ہے۔ اسی طرح تقریروں کا علاج بھی زیادہ تقریریں ہیں اور میں اسی مسلمہ اصول پر آج کل عمل بھی کر رہا ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک جرگہ سے خطاب کر رہے تھے۔
بینظیر کیس آج تک زیر التوا‘ اگر انہیں انصاف
نہیں ملا تو عام آدمی کو کیسے ملے گا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''بینظیر کیس آج تک زیر التوا‘ اگر انہیں انصاف نہیں ملا تو عام آدمی کو کیسے ملے گا‘‘ اس کا انصاف ہمارے دور میں ہی مل جاتا ‘لیکن والد صاحب جو کہ صدر مملکت تھے‘ دیگر ضروری کاموں میں مصروف رہے ‘کیونکہ اگر اس کیس میں انصاف حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے اور انصاف مل بھی جاتا تو کون سا جانے والوں نے واپس آ جانا ہے۔ اس لیے انہوں نے گڑے مردے اکھاڑنا ضروری نہ سمجھا‘ کیونکہ آخر مردوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں اور انہیں خواہ مخواہ اکھاڑنے سے ان کے حقوق پر زد پڑتی ہے‘ اسی لیے ہم نے آج تک صرف مردوں کے حقوق کا خیال رکھا ہے‘ کیونکہ زندہ اور جیتے جاگتے لوگ تو اپنے حقوق کا خیال خود رکھ سکتے ہیں اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں تا کہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں اور دوسروں کی محتاجی سے نکل آئیں۔ آپ اگلے روز لاہور ہائیکورٹ بار میں پیپلز پارٹی ونگ کے وکلاء سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈاکٹر عدنان پر حملہ علاج میں رکاوٹ کیلئے کیا گیا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ڈاکٹر عدنان پر حملہ علاج میں رکاوٹ کے لیے کیا گیا‘‘ جبکہ احمق حملہ آوروں کو معلوم ہی نہیں کہ یہاں کسی کو علاج کی تو ضرورت ہی نہیں‘ اور دوسرا یہ کہ ڈاکٹر عدنان بیچارے پہلے ہی بھائی صاحب کے تشدد کا نشانہ بنتے رہتے تھے اور اب بالآخر تنگ آ کر انہوں نے علاج کے لیے کہنا ہی چھوڑ دیا تھا اور اب‘ میرا کام باقی لوگوں کو بھائی صاحب کے تشدد سے محفوظ رکھنا ہے‘ ورنہ اب تک سبھی لوگ زخمی ہو کر قابلِ علاج ہو چکے ہوتے‘ جبکہ اسی مصروفیت کی وجہ سے میری واپسی بھی رکی ہوئی ہے ‘جس پر پاکستان میں الگ ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ میں وہاں جا کر اپوزیشن کی قیادت کروں ؛حالانکہ ان کے لیے مولانا کی قیادت کافی ہونی چاہیے۔ اتنی سی بات تھی ‘جسے افسانہ کر دیا۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
برادرم شاہد صدیقی نے آج اپنے کالم میں ساحرؔ لدھیانوی کے یہ دو اشعار درج کیے ہیں؎
پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکرائو تو کوئی بات ہے
سر جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا سر اٹھائو تو کوئی بات ہے
زندگی بھیک میں نہیں ملتی زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے
اپنا حق سنگ دل زمانے سے چھین پائو تو کوئی بات ہے
ہو سکتا ہے‘ گانا اسی طرح سے ہو‘ تاہم مصرع ہائے ثانی کا وزن پورا نہیں ہوتا اور ان کی ردیف '' تو کوئی بات ہے‘‘ کی بجائے ''توکوئی بات بھی ہے‘‘ ہونا چاہیے تھی‘اسی طرح تیسرے شعر کے مصرعِ ثانی''ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا‘‘ میں بھی ''تو جب‘‘ کی جگہ ''تو‘‘ یا ''جب‘‘ ہوتا تو اس کاوزن پورا ہوتا۔
اور‘ اب آخر میں لندن سے علی ارمانؔ کے یہ اشعار:
جتنا میں سخن میں ہوا خوشحال زیادہ
ہوتے گئے اتنے مرے نقال زیادہ
پانی کے کناروں پہ اُگی بھوک پکاری
دریا میں ہیں اب مچھلیاں کم جال زیادہ
ہم تیری محبت کے مضافات میں خوش ہیں
ہیں زندگیٔ شہر میں جنجال زیادہ
درویش بھی لگتا ہے دکھاوے پہ اتر آئے
لگتی ہے مجھے حال سے دھمال زیادہ
ہو سکتا ہے بازی کو پلٹ دیتے پیارے
مل جاتی اگر ان کو بس اک چال زیادہ
یہ تتلیاں جونہی تو نہیں بیٹھتیں تجھ پر
لگتے ہیں انہیں پھول ترے گال زیادہ
دم گٹھتا ہے اک خواہشِ کمبخت کا مجھ میں
تم کھینچ کے باندھا نہ کرو بال زیادہ
ہیں ہجر میں اس جسم کی رنگینیاں کچھ اور
اب مجھ پہ ہیں طاری وہ خدوخال زیادہ
ارمانؔ زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
شاعر ہیں مرے عہد کے پامال زیادہ
حُجرے پہ میرے عشق نے آ کر کہا کہ اُٹھ
دروازہ کھول تیری گرفتاری آئی ہے
آج کا مقطع
صاحبِ سازِ سخن میں ہی نہیں تنہا‘ ظفرؔ
کافی اوروں کا بھی حصہ میری یکتائی میں ہے