فیصل آباد سے ہمیں ''سخن‘‘ نامی ایک رسالہ موصول ہوا ہے‘ جس میں انٹرویو دیتے ہوئے ہمارے مہربان استاد ریاض مجید نے اس خاکسار پر تنقید کے تیر برسائے ہیں۔ میں تنقید سے اس لیے بھی نہیں گھبراتا کہ یہ کام میں خود بھی کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ تنقید اور اختلاف ِرائے کے بغیر ادب ایک قبرستان کا منظر پیش کرتا ہے۔
اب استاد ریاض مجید کے انٹرویو کے اس حصے کی طرف آتے ہیں‘ جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس سوال کے جواب میںکہ ظفرؔ اقبال کی شاعری کی اہمیت اپنی جگہ‘ ان کی کالم نگاری اور قطعہ نویسی کے بارے میں آپ کی رائے؟ آپ فرماتے ہیں: ''میں نے بتایا کہ ستّر کی دہائی کے اہم ترین غزل گو تھے۔ ''آبِ رواں‘‘ کے بعد وہ اس انداز کی شاعری نہیں کرپائے‘ بعض دوسرے شاعروں کے ساتھ مل کر نئی لسانی تشکیلات کے بکھیڑوں میں پڑ گئے‘ پھر وہ کالم نگار بن گئے اور اخباروں میں روزانہ قطعہ لکھنے کی ذمہ داری بھی انہوں نے اپنے سر لے لی‘ جس کا نتیجہ ان کی غزل میں پائی جانے والی تازہ کاری پر منفی اثرات کی صورت میں ظاہر ہوا‘ پھر وہ اپنے کالموں میں نئے شعرا کو ایسے مشورے بھی دینے لگے‘ جنہیں بوجوہ ناپسند کیا گیا۔اب‘ وہ اور ان کی شاعری تنازعات میں گھر چکی ہے۔ روزانہ کی قطعہ نویسی پر بھی اعتراضات سامنے آنے لگے۔ انہیں چاہیے کہ دوسروں کو بن مانگے مشورے دینے کی بجائے تھوڑا وقت نکال کر اپنے قطعات پر نظر ثانی کر لیا کریں‘‘۔صاحب ِ موصوف کا زیادہ زور میرے قطعات پر ہے۔ سو‘ اس بارے عرض یہ ہے کہ میرا قطعہ ایک ڈنگ ٹپائو چیز ہوتا ہے‘ جسے میں اپنی شاعری میں شمار نہیں کرتا اور نہ ہی میرا کوئی قطعہ میرے کسی شعری مجموعے میں شامل ہے‘ اگر وہ یہ بِن مانگا مشورہ میری شاعری کے بارے میں دیتے تو شاید اس سے میرا بھلا ہو ہی جاتا۔ انٹرویو کرنے والوں میں ہمارے دوست شہزاد بیگ بھی شامل تھے‘ جنہوں نے چند سال پیشتر اپنا مجموعہ کلام تبصرے کے لیے بھیجا تھا‘ جبکہ اس سے پہلے میں ان کے ایک مجموعۂ کلام کی تعریف کر چکا تھا؛ چونکہ یہ مجموعہ میری نظر میں کافی مایوس کن تھا‘ اس لیے میں نے اس پر کوئی رائے دینے سے گریز کیا کہ وہ برا نہ مان جائیں‘ لیکن پھر ان کی طرف سے تقاضا ہوا کہ تبصرہ ضرور کریں ۔ ع
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
بقول استاد ریاض مجید‘ اگر میرے کالموں نے میری شاعری کو نقصان پہنچایا ہے تو یہ بتایا جائے کہ ان کی اپنی شاعری کو کیا ہوا ہے؟ وہ تو کالم نہیں لکھتے اور شروع سے اپنے اکلوتے شعر پر کھڑے ہیں؎
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
اسی طرح آنس معین نامی اکلوتے شعر کے شاعر اور بھی ہیں‘ جن کے بارے میں اسی رسالے میں ڈاکٹر فوق کریمی نے مضمون باندھتے ہوئے اسے چھوٹی عمر کا بڑا شاعر قرار دیا ہے۔ شعر یہ ہے؎
دیوار کیا گری مرے کچّے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
میں نے اس کے بارے میں پہلے بھی لکھا تھا کہ یہ شعر واقعاتی طور پر بھی غلط ہے‘ کیونکہ مکان کچّا ہو یا پکّا‘ چار دیواری پر مشتمل ہوتا ہے اور اگر ایک دیوار گر بھی جائے تو اس میں سے راستہ اس لیے نہیں بنایا جا سکتا کہ اس جگہ سے داخل ہو کر باہر اور آگے نکلنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا‘ جب تک سامنے والی دیوار بھی گری ہوئی نہ ہو! نا صرف یہ‘ بلکہ شاعر اس گری ہوئی دیوار کو کافی عرصے تک دوبارہ تعمیر ہی نہیں کرتا‘ تا کہ لوگ ان کے صحن میں پوری تسلی سے راستے بنا لیں۔ایک آدھ اچھا شعر تو آدمی حادثتاً یا غلطی سے بھی کہہ لیتا ہے‘ اسی شمارے میں استاد صاحب کی کوئی اٹھارہ غزلیں شائع ہوئی ہیں‘ جن کا خاصا صرف یہ ہے کہ ان سے کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوا اور موصوف ان تمام اشعار کو ندرت‘ تازگی اور تاثیر سے جان بچا کر نکل گئے ہیں۔ اس حسنِ احتیاط کی جتنی بھی داد دی جائے‘ کم ہے۔ انہوں نے میری شاعری کو تنازعات میں گھری قرار دے کر اس کا بسترا گول کر دیا ہے۔ میں ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں‘ تاہم‘ شاعری کی قدر کو ناپنے کا میرا ایک اپنا پیمانہ ہے کہ غزل کی ٹرین میں صرف دو درجے ہوتے ہیں‘ فسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس؛ چنانچہ شعر یا تو فسٹ کلاس ہوتا ہے یا تھرڈ کلاس‘ اس لیے درمیانے درجے کا شعر بھی تھرڈ کلاس ہی ہوتا ہے۔
ریاض مجید صاحب مجھ سے عمر میں کم از کم دس سال چھوٹے ہیں اور انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ بزرگی عمر سے نہیں‘ بلکہ عقل سے ہوتی ہے۔ چند سال پہلے لاہور کے ایک مشاعرے میں ان سے ملاقات ہوئی تھی‘ اس وقت تو وہ بھلے چنگے تھے۔ پتا نہیں یہ ایک دم انہیں کیا ہو گیا ہے۔ شاید اس وقت تک میری شاعری تنازعات میں نہیں گھری تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہزاد بیگ‘ جو اس رسالے کی مجلسِ ادارت میں بھی شامل ہیں‘ استاد ریاض مجید کی خدمات حاصل کر لی ہوں‘ تا کہ میرے ساتھ اپنا سکور برابر کر سکیں‘ تاہم میرے ساتھ یہ مہربانی پہلی بار نہیں ہوئی ہے۔ کوئی دس پندرہ برس پہلے فیصل آباد ہی کے کچھ شعرا نے میری شاعری کی پیروڈی میں '' سہ روزہ ہذیان‘ ازڈفر اقبال‘‘ کے عنوان سے پوری ایک کتاب لکھ ماری تھی۔ میں نے اس پر لکھا تھا کہ پیروڈی ہمیشہ بڑے شاعر اور بڑی شاعری کی جاتی ہے۔ انہوں نے مجھے بڑا شاعر تسلیم کر لیا ہے‘ مجھے تو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے!انہی دنوں ان میں سے ایک نے اپنا شادی کارڈ مجھے بھیجا اور میں نے فیصل آباد جا کر اس میں شرکت کی۔ شہزاد احمد کو پتا چلا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کو اس شادی میں شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی‘ تاہم کچھ عرصے بعد انہی حضرات نے نا صرف اس کتاب پر شرمندگی کا اظہار کیا‘ بلکہ تحریری معذرت بھی کی‘ اگر کچھ دوستوں کے پھر کچھ ایسے ہی ارادے ہیں تو مجھے اس کا شدت سے انتظار رہے گا۔ یہ رسالہ بھی دو تین جگہوں سے پھرتا پھراتا ہوا میرے پاس پہنچا ہے۔ سو‘ میرا تازہ ترین پوسٹل ایڈریس یہ ہے: 35 کے بلاک‘ ماڈل ٹائون ‘ لاہور۔
آج کا مقطع
ہوں اُس کا سب سے زیادہ نیاز مند‘ ظفرؔ
جو شہر میں مرا سب سے بڑا مخالف ہے