ناجائز بھرتیاں‘خاقان عباسی کے وارنٹ‘
یہ تماشا ختم ہونا چاہیے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ناجائز بھرتیاں‘ خاقان عباسی کے وارنٹ‘ یہ تماشا ختم ہونا چاہیے‘‘ ان سے کوئی پوچھے بھرتیاں کبھی ناجائز ہو سکتی ہیں؟ جبکہ کسی کو روزگار دینے سے بڑی نیکی اور کیا ہو سکتی ہے‘ جس سے اس کے تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں؛ اگرچہ نوکری دینے والے کے بہت سے مسائل بھی ساتھ ہی حل ہو جاتے ہیں‘ جبکہ مفت نوکریاں دینا اس لیے بھی غلط ہے کہ اس سے لوگوں کو مفت خوری کی عادت پڑتی ہے ۔اس لیے دو چار لاکھ خرچ کرنے سے اگر اس عادت سے بچا جا سکتا ہے ‘تو اور کیا چاہیے؟ اور یہ ایک زندہ قوم کو زیب بھی یہی دیتا ہے۔علاوہ ازیں‘ سرکاری نوکری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نوکری پر جو دو چار لاکھ خرچ کیے جاتے ہیں ‘وہ بہت تھوڑی مدت میں وصول بھی ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد ساری نوکری مفت میں پڑتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت سرخ لکیر پر کھڑی ہے‘ غلطی کی گنجائش نہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت سرخ لکیر پر کھڑی ہے‘ غلطی کی گنجائش نہیں‘‘ کیونکہ سب سے بڑی غلطی تو حکومت پہلے ہی کر چکی ہے کہ سرخ لکیر کمیونزم کی لکیر ہے‘ جو سراسر غیر شرعی ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت لکیر کی فقیر ہے ‘جبکہ اسے سبز لکیر پر کھڑے ہونا چاہیے تھا اور اس طرح ثوابِ دارین حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی‘ جبکہ اس کے علاوہ بھی کئی رنگ ہیں ‘جن میں سے کسی کا بھی انتخاب کیا جا سکتا تھا؛ اگرچہ کسی لکیر پر کھڑا ہونا اس کے لیے ضروری بھی نہیں ہے‘ کیونکہ جہاں وہ کھڑی ہوگی ‘وہاں لکیر اپنے آپ ہی پڑ جائے گی‘ جیسے کہ سانپ نکل جائے تو لکیر پڑ جاتی ہے اور جسے لکیر پیٹنا بھی کہا جاتا ہے اور جہاں تک غلطی کی گنجائش کا تعلق ہے تو وہ صرف میرے لیے ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے کورونا وائرس کے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے: منظور احمد
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل منظور احمد نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے کورونا وائرس کے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے‘‘ اور یہ میرا اندازہ ہے‘ کیونکہ میں ہمیشہ اندازے سے بات کرتا ہوں‘ جو بعض اوقات ٹھیک بھی نکلتا ہے‘ جبکہ میں وزیراعظم عمران خان کے بارے میں اکثر یہ اندازے لگاتا رہتا ہوں‘ ہم لوگوں کے پاس اور تو کوئی کرنے کا کام ہے ہی نہیں اور جو کام ہمیں آتا ہے ‘وہ اقتدار کے دنوں میں ہی کیا جا سکتا ہے اور جو اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے کہ اب مزید کام کی گنجائش ہی نہیں ہے اور وہ بھی کسی کو ہضم نہیں ہو رہا؛ حالانکہ یہ ہمارا کام ہے اور اس کے ہضم ہونے یا نہ ہونے سے کسی اور کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ‘جبکہ ہمارا ہاضمہ ماشاء اللہ بنا ہی اسی کام کے لیے ہے اور ہمیں کبھی کسی پھکّی وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ آپ اگلے روز قصور میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
دنیا زاد---کتابی سلسلہ ۴۸
اسے کراچی سے ہمارے دوست آصف فرخی ترتیب دیتے ہیں۔ زیر نظر شمارہ کتاب الوداع کی حیثیت سے ہے ‘جو حال ہی میں انتقال کر جانے والے ادیبوں کے حوالے سے ہے‘ جن میں فہمیدہ ریاض‘ خالدہ حسین‘ الطاف فاطمہ‘ اقبال مجید‘ اکبر معصوم اور انور سجاد کے نام شامل ہیں اور جس میں مختلف شعرا و ادبا کی طرف سے مرحومین کو خراج تحسین و عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ مرحومین پر مضامین کے علاوہ ان میں سے بعض کی تخلیقات کے نمونے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے انتظار حسین کی یاد میں شمیم حنفی کا مضمون ہے‘ جبکہ دیگر مضمون نگاروں میں چند ایک کے نام یہ ہیں: زہرا نگاہ‘ کشور ناہید‘ افضال احمد سید‘ آصف فرخی‘ یاسمین حمید‘ محمد حمید شاہد‘ ناصر عباس نیئر‘ زاہدہ حنا‘ مسعود اشعر‘ احمد جاوید و دیگران ۔ اور اب آخر میں وحیدؔ احمد کی ایک نظم:
Genetic code
زمانے بھر کے کھیتوں میں
مری قسمت کا گیہوں اُگ رہا ہے
رسوئی میں مری گندم کی تالی بج رہی ہے
کھڑے پانی میں دھانی اوڑھ کر
لہراتے چاول پر وحیدؔ احمد لکھا ہے
جڑوں کو کھول کر سوندھے اندھیرے میں
میں دھرتی ماں کے رس کو چوستا ہوں
کوئی پھولے تھنوں کو بھینچ کر
میری رسیلی دھار کو پیتل پہ لیتا ہے
تو تازہ دودھ پر جو جھاگ بنتا ہے
سراسر باپ جیسا ہے
چمکتے چاند کی پیڑھی پہ بیٹھی میری نانی
میرے تن کا سُوت بُنتی ہے
مری سانسوں میں سورج کی ہمکتی ہانپ چلتی ہے
مری آنکھوں میں تاروں کی سلگتی آنچ پلتی ہے
کہیں پر کہکشاں کی راکھ میں تارے دبے تھے
مری ماں نے وہ مٹھی بھر کے اپنی کوکھ بھر لی تھی
تو میں پیدا ہوا تھا
سمندر ہے سمندر میں مرا بجرا پڑا ہے
مری قسمت پُٹری کے کوڈ میں
مرے لہو کی روشنائی سے لکھا
شجرہ پڑا ہے
آج کا مطلع
کسی پر جاں فشانی کر رہا ہوں
یہ دولت آنی جانی کر رہا ہوں