"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ابرارؔ احمد کی نظم

معیشت کی بدحالی کورونا سے بڑی تباہی لائے گی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''معیشت کی بدحالی کورونا سے بڑی تباہی لائے گی‘‘ واضح رہے کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ تباہی لا سکتی ہے‘ بلکہ کہا ہے کہ تباہی لائے گی‘ جس کے لیے ہم نے بھی پوری کوشش کی تھی ‘لیکن یہ کم بخت تباہی کنارے پر آ کر ہی رک گئی تھی اور مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ؛حالانکہ اسے پانچ سات دھکے بھی دیئے تھے ‘لیکن نہ ‘ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی طرح اس نے ہلنے کا نام ہی نہیں لیا‘ تاہم ہم نے اس کا کچھ زیادہ برا نہیں منایا‘ کیونکہ ہم اس میں سے اپنا حصہ پوری طرح نکال کر اسے ٹھکانے بھی لگا چکے تھے؛ چنانچہ اب ‘امید ہے کہ یہ اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ جائے گی‘ تا کہ سارا کچھ موجودہ حکومت کے کھاتے میں جائے اور یہ بری طرح سے بدنام ہو کر گھر چلی جائے‘ اور ہمارا راستہ ہموار ہو سکے۔ آپ اگلے ورز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
موجودہ حالات میں اپوزیشن مؤثر طور 
پر عوام کی ترجمانی کر رہی ہے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''موجودہ حالات میں اپوزیشن مؤثر طور پر عوام کی ترجمانی کر رہی ہے‘‘ اور کورونا وائرس کے ختم ہوتے ہی مولانا فضل الرحمن کی ولولہ انگیز قیادت میں یہ ترجمانی زیادہ مؤثر طور پر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ‘کیونکہ ہم دونوں بڑی پارٹیاں کچھ عرصے سے کافی نقاہت کا شکار ہیں؛اگرچہ مولانا کے ہاتھ پلّے اب بھی کچھ نہیں رہا ہے‘ اور وہ بھی فرار کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں‘ کیونکہ مارچوں اور دھرنوں کی ناکامی نے ان کے معدے پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے ‘جو کہ بالکل بیکار ہو گیا ہے اور اب وہ اس جگہ نیا معدہ فٹ کروانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں‘ جس کے لیے انہوں نے ہماری دی ہوئی رقم میں سے کچھ بچا کر رکھ لی تھی ‘بلکہ اب نئے سرے سے ان کی مزید خدمت کرنا پڑے گی ‘تا کہ وہ تسلی سے قیادت فرما سکیں۔ آپ اگلے روز پارلیمانی رہنمائوں کی کانفرنس میں عمران خان کی تقریر کے بعد خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
حکومت نے مشکل کی اس گھڑی میں عوام کو تنہا چھوڑ دیا ہے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت نے مشکل کی اس گھڑی میں عوام کو تنہا چھوڑ دیا ہے‘‘ جبکہ میں ہمیشہ کی طرح اپنی تقریروں کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں ‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ میرے ساتھ دینے کے بعد عوام اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ تنہا محسوس کر رہے ہیں اور جس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ میں دن میں دو دو تقریریں کیا کروں کہ یہ بھی میرے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے ‘جبکہ دائیں ہاتھ سے میں دوسرے کئی کام کر لیتا ہوں‘ تاہم ایسا لگتا ہے کہ عوام کوئی اور زبان سمجھتے ہیں‘ اس لیے میں یہ معلوم کرنے کے بعد کہ یہ کون سی زبان سمجھتے ہیں‘ اپنی تقریر اسی زبان میں ترجمہ کر کے پیش کیا کروں گا ‘کیونکہ حکومت کی طرح میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا ؛اگرچہ خود عوام نے ایک طویل عرصے سے مجھے تنہا چھوڑ رکھا ہے ‘جس کی مجھے ہرگز کوئی پروا نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم حالات کی سنگینی کو سمجھیں‘ سیاست پوری کریں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم حالات کی سنگینی کو سمجھیں‘ سیاست پوری کریں‘‘ جبکہ ہماری سیاست تو ویسے ہی ختم ہو چکی ہے اور ہمارے اکابرین کو نیب ہی اس قدر مصروف رکھتی ہے کہ انہیں سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ہے اور وہ سر کھُجانے کی بجائے پائوں کھجانے لگتے ہیں ‘کیونکہ سر تک ہاتھ پہنچنے میں کافی دیر لگتی ہے‘ جو کہ پائوں سے وہ ویسے بھی بہت کام لیا کرتے ہیں ‘جیسا کہ ہمارے قائدین سر پر پائوں رکھ کر لندن بھاگ گئے تھے؛ حالانکہ سر اوکھلی میں دینے کے لیے ہوتا ہے اور پائوں نیچے سے زمین نکالنے کے لیے‘ لیکن مذکورہ مصروفیت ہی کی وجہ سے انہیں محاوروں کا خیال رکھنے کا بھی وقت نہیں ملتا اور ایسا لگتا ہے کہ پارٹی پر ویسے بھی آخری وقت آیا ہوا ہے اور نواز شریف کی طرح اس کے پلیٹ لیٹس بھی اب برائے نام ہی رہ گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور اب آخر میں ابرار ؔاحمد کی یہ نظم:
موجودگی----
کہیں دور بکھری پڑی ہے/وہ ٹھوکر/کہ جس سے کیا تھا/مسافت کا آغاز----وہیں پر کہیں/گونج ہے‘ آہ جیسی/کہ جس کے فسوں میں
ہر اک خواب سے/سلسلہ وار گزرا
کبھی خوش دلی سے/کہیں بے دلی سے/کہ راتیں بہت تھیں/سو‘ راتیں بہت ہیں/کہ گھاتیں بہت تھیں/سو‘گھاتیں بہت ہیں
اندھیرے میں گرتی ہوئی منزلیں بھی/مرے گرد پھیلی رہی ہیں/تمازت میں بکھرے ہوئے/صاف شفاف دن بھی----
وہ شامیں تو گنتی میں بھی/کب رہی ہیں/کہ جن میں کہیں/نرم لہراتی مہکار/ہر سمت سے‘ جگمگاتے ہوئے لمس/میرے بدن سے/مرے بازوئوں سے لپٹتے رہے ہیں/مرے دل میں نیزوں کی صورت گڑے ہیں----
سفر جس قدر تھا/کڑا بھی تھا‘ ہموار بھی تھا/یہیں سے کہیں‘ اور آگے بھی/رستے ہیں شاید/کہ جن پر مجھے/مسکراتے ہوئے چلتے جانا ہے/حدِّ نظر تک----
یہ دنیا ہے‘ آوازوں کی سمفنی/مجھے/اپنے حصے کا سُر تو لگانا ہی ہوگا/جہاں ہوں/وہاں تو یقینا ہوں موجود----
لیکن‘ بہت دور تک ہے یہ موجودگی
جو تسلسل کے ہالے میں
رقصاں رہی ہے
سو ‘رقصاں رہے گی----!
آج کا مقطع
موجِ ہوس اُبھر کے وہی رہ گئی‘ ظفرؔ
دیوارِ دوستی تھی مرے اُس کے درمیاں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں