عوام کی خدمت کا عمل جاری رہے گا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کی خدمت کا عمل جاری رہے گا‘‘ جو گزشتہ 70 سال سے رواں دواں ہے؛ اگرچہ عوام کی مزید خدمت کی گنجائش نہیں‘ کیونکہ یہ خدمت پہلے ہی ضرورت سے زیادہ کی جا چکی ہے‘ جو کہ بحفاظت تمام لندن پہنچا دی گئی تھی اور جس کی واپسی کے لیے حکومت سر پیر مار رہی ہے؛ حالانکہ اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ خدمت واپسی کیلئے نہیں کی گئی تھی‘ جبکہ حکومت کو یہ خدمت اپنے طور پر انجام دینی چاہیے‘ جس کیلئے ہماری درخشندہ روایات موجود ہیں‘ جن پر عمل کر کے حکومت خود بھی خدمت گاروں میں شامل ہو سکتی ہے ‘بجائے اس کے کہ ہماری کی ہوئی خدمت میں کیڑے ڈالتی رہے۔ آپ اگلے روز حفاظتی کٹس عوام میں تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام آج ایک اور ذوالفقار بھٹو کی تلاش میں ہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عوام آج ایک اور ذوالفقار بھٹو کی تلاش میں ہیں‘‘ حالانکہ انہیں دُور جانے کی ضرورت ہی نہیں اور والد صاحب کی ذاتِ بابرکات سے استفادہ کر سکتے ہیں‘ جبکہ ان کے ساتھ ساتھ خاکسار بھی موجود ہے‘ جس نے بھٹو کے انداز میں تقریر کرنا بھی سیکھ لیا ہے؛ اگرچہ وہ تقریر رومن الفاظ میں لکھی ہوئی ہوتی ہے‘ تا کہ کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نہ نکل جائے ‘جبکہ والد صاحب تو بھٹو کی طرح ٹوپی بھی پہن لیتے ہیں‘ بلکہ جو کام بھٹو نے نہیں کیے تھے ‘وہ بھی کمال مہارت سے کر لیتے ہیں‘ مثلاً جعلی اکائونٹس والی فنکاری‘ بھٹو جس کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے اور جس نے نیب وغیرہ کو چکرا کر رکھا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز بھٹو کی برسی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وبا کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''وبا کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘ اور مسلسل بے چینی سے کروٹیں بدلتے رہیں گے‘ جس میں گھبرانا ہرگز شامل نہیں‘ جس کی تاکید وزیراعظم نے کر رکھی ہے؛ حالانکہ وہ خود کافی گھبرائے گھبرائے سے رہتے ہیں اور جس کا مطلب ہے کہ وہ پوری قوم کے حصے کا خود ہی گھبرا رہے ہیں اور اس جذبہ کی قدر کرنی چاہیے؛ حتیٰ کہ اب تو عوام میری کارگزاری کی بھی تعریف کرنے لگے ہیں‘ جو ماضی میں تو ٹھیک ٹھاک تھے۔ اب‘ انہیں پتا نہیں کیا ہو گیا ہے‘ تاہم اب میرے بے چین رہنے سے امید ہے کہ ان کی بھی تسلی ہو جائے گی؛ بشرطیکہ انہوں نے خود بے چین ہونا شروع نہ کر دیا‘ کیونکہ ان عجیب و غریب عوام کا کچھ پتا نہیں کہ کس وقت کیا کر گزریں۔ آپ اگلے روز لاہور کے مضافات میں لاک ڈائون کے اثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔
لاک ڈائون کو 12 روز ہو گئے‘ غریب کو خوراک نہ مل سکی: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''لاک ڈائون کو 12 روز ہو گئے‘ ایک بھی غریب کو خوراک نہ مل سکی‘‘ اور غربا صرف میری تقریروں پر گزارا کر رہے ہیں اور مجھے دعائیں دے رہے ہیں کہ بقول شاعر: ع
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ
اگرچہ مجھے اس دعا کی ہرگز ضرورت نہیں کیونکہ زورِ بیان پہلے ہی اتنا زیادہ ہے کہ بعض اوقات میں خود پریشان ہو جاتا ہوں کہ اکثر اوقات زور ہی زور باقی رہ جاتا ہے اور بیان سرے سے ہی غائب ہو جاتا ہے اور جس سے عوام کی بھوک تو رفع ہو جاتی ہے‘ میرا معدہ بالکل خالی ہو جاتا ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
فنا کا اشارہ نہیں
(معاصرین کے نام)
اب کسے یاد ہے
کب چلے تھے کہاں سے
مگر خاک اوڑھے ہوئے
بادلوں کے تلے
نیند میں یوں رواں تھے
کہ جیسے کہیں ہم کو جانا نہ تھا
اور پھر
ہم نے سڑکوں کو روندا
پرندوں کی آواز میں سُر ملائے
یہاں سے وہاں تک
اسی خاک میں
عمر بھر اپنے آنسو گرائے
اور اب---
پھول ہی پھول ہیں‘ چار سو
سبز پتوں میں گرتی ہوا میں
لچکتی ہوئی اپنی شاخوں پہ
رنگوں کو سہتے ہوئے
کس کو معلوم ہے
کل کو اس زندگی کی روش پر ٹہلتے ہوئے
کون‘ کس پھول کے پاس
رک کر کہے گا
''یہ کیا رنگ ہے
پھیکا پڑتا نہیں
کیا بہاریں ہیں
جن تک خزاں کی رسائی نہیں
کس طرح سے سمیٹے ہو مہکار
جس کو
فنا کا اشارہ نہیں‘‘
آج کا مقطع
دُور ہے سبزہ گاہِ معنی‘ ظفرؔ
ابھی الفاظ کا یہ ریوڑ ہانک