حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا: شہبازشریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت ناکام ہو چکی ہے‘ جس نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے‘‘ جبکہ ہمارے دور میں عوام ہمارے رحم وکرم پر ہوا کرتے تھے ‘جس کا ان کی حالت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ کیونکہ حکومت کرنی ہو تو عوام کو قابو کر کے رکھنا پڑتا ہے ‘پیشتر اس کے کہ وہ بے قابو ہو جائیں اور اسی لئے ہم کبھی ناکام نہیں ہوئے تھے‘ تاآنکہ حسین نواز کی '' الحمد للہ‘‘ نے ہمارا بیڑہ ہی غرق کر کے رکھ دیا اور عوام ہمارے چنگل سے ایسے نکلے کہ اب عوام ہماری پکڑائی میں نہیں آ رہے اوراس عوام نے عمران خان کو وزیر اعظم سلیکٹ کروا کر رکھ دیا ہے اور ہم ابھی تک برخوردار کی جان کو رو رہے ہیں اور ہمیں کوئی چپ کروانے والا بھی نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارکان اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔
کورونا سمیت ہرچیز تبدیل‘ افسوس
اپوزیشن کا روّیہ نہ بدلا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''کورونا سمیت ہر چیز تبدیل ہو چکی ہے ‘لیکن اپوزیشن کا رویہ نہ بدلا؛ حتیٰ کہ ہم بھی یکسر تبدیل ہو چکے ہیں‘ جو پہلے عوام کو نہ گھبرانے کی تلقین کیا کرتے تھے اور اب کورونا کی افزائش اور آنے والی تباہی سے عوام کو خبردار کر رہے ہیں اور وہ ہمیں حیران ہو ہو کر دیکھ رہے ہیں کہ انہیں ایک دم کیا ہو گیا ہے؟ جبکہ وزیراعظم کو ان کے ساتھیوں ہی نے اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ انہوں نے خود گھبرانا شروع کر دیا ہے اور بار بار عوام کوبھی گھبرانے کی دعوت دے رہے ہیں اور مکمل رپورٹ کے بعد ابھی مزید گھبرانے کا مرحلہ شروع ہو گا کہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ ہے کہ نہ اسے نگلے بنتی ہے‘ نہ اُگلے۔ آپ اگلے روز لاہور میں علیم خاں اور جلال الدین رومی سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت لاک ڈاؤن کے دوران ناک ڈاؤن ہو چکی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت لاک ڈاؤن کے دوران ناک ڈاؤن ہو چکی ہے‘‘ اور میں ناک ڈاؤن ہوتے ہوتے رہ گیا ہوں‘ کیونکہ اس لاک ڈاؤن کا مجھے کوئی کریڈٹ نہیں دیا جا رہا؛ حالانکہ میں نے تقریریں کر کر کے اپنے گردے تک خراب کر لئے ہیں‘ جس سے میرے روزانہ خطاب پر بھی بُرا اثر پڑ سکتا ہے‘ کیونکہ یہ کوئی معمولی نہیں‘ بلکہ بڑے دل گردے کا کام ہے اور اکیلا دل پر بوجھ برداشت نہیں کر سکتا‘ اس لئے میں نے سوچا ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے پھیپھڑوں کو بھی زحمت دی جائے‘ کیونکہ گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرنا اصل میں پھیپھڑوں ہی کا کام ہے‘ جو بیچارے گردوں نے سنبھال رکھا تھا اور یہ جو ناروا بوجھ اٹھا اٹھا کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
لاک ڈاؤن کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں: صدر مملکت
صدرمملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ ''لاک ڈاؤن کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘‘ کیونکہ مرد حضرات بیویوں کی مسلسل قربت برداشت کر کر کے اب کافی جفاکش ہو چکے ہیں اور اب وہ کسی بھی ارضی و سمادی آفت کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ جبکہ بیگمات کیلئے ہر روز روزِ عید ہوتاہے اور ہر شب شب ِ برات ہے اور وہ لاک ڈاؤن کے مستقل ہونے کی دعائیں مانگ رہی ہیں ‘کیونکہ ویسے بھی انہیں اس وجہ سے کافی سہولت حاصل ہو گئی ہے کہ خاوند حضرات کپڑے دھونے اور برتن وغیرہ صاف کرنے میں بھی اُن کے مددگار ہو گئے ہیں اور اب وہ ان سہولیات کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ لاک ڈاؤن بند ہونے پر ان کے سارے خواب ہی چکنا چور ہو کر رہ جائیں گے۔ آپ اگلے روز گلگت میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں معروف کالم نگار عرفان ؔصدیقی کی تازہ غزل‘ اس وضاحت کے ساتھ کہ یہ بھارت والے عرفانؔ صدیقی نہیں‘بلکہ ہمارے اپنے والے ہیں۔؎
ہے ہمسفر کہ رہزنوں سے رابطے میں ہے
اک اجنبی سا شخص مرے قافلے میں ہے
دیکھو قریب سے تو ہنر آشکار ہوں
سننے میں وہ مزہ کہاں جو دیکھنے میں ہے
ایاک نعبد سہی وردِ زباں‘ مگر
ہر شخص اپنا اپنا خدا پوجنے میں ہے
قبریں قریب تر ہیں اور انسان دُور دُور
ہر شہر جاں کنی کے عجب مرحلے میں ہے
ہم محوِ انتظار ہیں اجداد کی طرح
وہ صبحِ خوش جمال ابھی راستے میں ہے
تعمیر جیسے کارِ زیاں کار میں کہاں
جو لطف توڑنے میں اور پھر جوڑنے میں ہے
باہر بہت گھٹن سہی‘ یہ تو نہ تھا مگر
دستک کا ایک خوف جو گھر بیٹھنے میں ہے
کل تک تو قربتیں تھیں تقاضائے عافیت
اب ہر ثوابِ اجر و جزا فاصلے میں ہے
روحِ غزل تھا کل جو مرے شعر شعر میں
وہ اب فقط ردیف میں اور قافیے میں ہے
آج کا مطلع
اگرچہ منع بھی کرتا نہیں مروت میں
ملائے رکھتا ہے انکار بھی اجازت میں