"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور نعیم ضرارؔ کی شاعری

لگتا ہے غریبوں کاپیسہ مافیاز کی جیب میں چلا گیا:صدر علوی
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ''لگتا ہے کہ غریبوں کا پیسہ مافیاز کی جیب میں چلا گیا‘‘ اور پیسہ چونکہ ہر وقت گردش میں رہتا ہے ‘اس لئے جیبیں تبدیل کرتا رہتا ہے‘ اس لئے کسی کا پیسہ‘ اگر کسی اور کی جیب میں چلا جائے تو اس پر حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور صرف اور صرف مافیاز‘ اس میں کوئی قصور نہیں‘ جو زیادہ تر موجودہ یا سابق حکمران ہیں اور خود حیران ہیں کہ پیسے کو یہ سوجھی کیا ہے‘ جو اُن کی جیب میں چلا آیا ہے‘ جو پہلے ہی بے تحاشا پیسے سے بھری ہوئی تھیں؛ چنانچہ غریبوں کو بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے‘ کیونکہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے ‘بلکہ یہ میل اُترنے پر اُنہیں خوش ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ وفاقی حکومت کے خلاف
ذومعنی باتیں نہ کریں: فیاض الحسن چوہان
صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ سندھ وفاقی حکومت کے خلاف ذومعنی باتیں نہ کریں‘‘ کیونکہ جب اس کے خلاف یک معنی باتیں ہی کثرت سے ہو سکتی ہیں‘ تو ذومعنی باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جس سے وفاقی حکومت سارا وقت باتوں کا دوسرا مطلب نکالنے میں صرف ہو جاتا ہے اور مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں اور اگر اس نے ذومعنی باتیں کرنا ہی ہیں تو ساتھ دوسرے معانی کی وضاحت بھی کر دیا کرے‘ تاکہ خواہ مخواہ حکومت کا وقت ضائع نہ ہو‘ کیونکہ حکومت کے پاس اب وقت ہی کی دولت باقی رہ گئی ہے‘ جس کی حفاظت میں اس کا سارا وقت گزر جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے میڈیا کے لیے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اجتماعی سیاسی بصیرت سے کام لیں تو 
ہر مشکل آسان ہو جائے گی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''اجتماعی سیاسی بصیرت سے کام لیں تو ہر مشکل آسان ہو جائے گی‘‘ جو خاکسار عرصۂ دراز سے مہیا کر رہا ہے‘ لیکن حکومت اس کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے اور اسی لئے اسے نالائق حکومت کہا جاتا ہے؛ حتیٰ کہ اب میری تقریروں میں اجتماعی سیاسی بصیرت ہی باقی رہ گئی ہے اور غیر اجتماعی سیاسی بصیرت سرے سے ہی غائب ہو گئی ہے ‘جس سے میں خود بہت پریشان ہوں اور اگر حکومت نے واقعی اس سے فائدہ نہیں اٹھانا تو صاف بتا دے ‘تاکہ میں خواہ مخواہ تقریروں پر وقت ضائع نہ کرتا رہوں جو صرف اور صرف لوگوں کا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بلاگز لکھنے والوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
برادرم محمد اظہار الحق نے اپنے کالم میں گزشتہ روز فارسی کا ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے۔؎
بہ نادان آنچنان روزی رساند
کہ دانا در آں حیران بماند
اس کے دوسرے مصرعہ میں ایک تو ''حیران‘‘ کی بجائے حیراںہونا چاہیے تھا اور دوسرے اس میں ایک لفظ چھپنے سے رہ گیا ہے۔ صحیح مصرعہ اس طرح سے ہو سکتا ہے ؎
کہ دانا ہم دراں حیراں بماند
ہمارے بھائی صاحب نے بھی ایک شعر اس طرح درج کیا ہے۔ ؎
روز ملنے پر نہیں نسبتِ عشق کی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
اس کے پہلے مصرعہ میں ''عشق کی‘‘ کی بجائے ''عشقی‘‘ ہے
اور‘ اب آخر میں نعیم ضرارؔ کی شاعری:
مآلِ ظلم کی فریاد بھی اُسی کی تھی
غضب تو یہ ہے کہ ایجاد بھی اُسی کی تھی
جدھر سے آئی تھی شاید اُدھر گئی ہو گی
پلٹ کے آئی نہیں‘ یاد بھی اُسی کی تھی
تو گویا میرا ہنر بھی نہیں ہے اب میرا
کہ شعر جس پہ کہا داد بھی اُسی کی تھی
وصال رُت میں ملال اُترا کمال اُترا
جواب میں بھی سوال اُترا کمال اُترا
نظر ملی تو دھنک کی نازک کمان ٹوٹی
جو رنگ اترا وہ لال اُترا کمال اُترا
مرے لہو میں خیال بن کے وہ دوڑتا ہے
مرے سخن میں جمال اُترا کمال اُترا
..................
پر نکلتے ہی کترنے کی وبا پھوٹ پڑی
ایک ہی بار نہ مرنے کی وبا پھوٹ پڑی
جانے کیا بیر تھا اس شہر کو مجھ ایسوں سے
میرے بستے ہی اُجڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
میں وہ محرومِ عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
آج کا مقطع
اُس شہر کا تو ذکر ہی کیا ہے ابھی‘ ظفرؔ
یہ پوچھئے کہ شہر نما کتنی دُور ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں