اب قوم کے نیک اور ایک ہونے کا وقت ہے: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ ''اب قوم کے نیک اور ایک ہونے کا وقت ہے‘‘ تاہم نیک تو ہم پہلے ہی کافی ہیں، متعدد وفاقی وزرائے کرام اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں، بلکہ ان میں سے کئی حضرات تو کچھ ضرورت سے زیادہ ہی نیک واقع ہوئے ہیں جن کی دیکھا دیکھی باقی ماندہ معززین بھی مزید نیک ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ ایک یک رنگی کی صورت پیدا ہو جائے اور جب یہ سارے ہی ایک جیسے ہو گئے تو اپنے آپ ہی ایک بھی ہو جائیں گے؛ چنانچہ جب ہماری کابینہ ہی نیک اور ایک ہو جاتی ہے تو یوں سمجھیے کہ ساری قوم ہی ان کی طرح نیک اور ایک ہو گئی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کورونا سے متعلق پیپلز پارٹی مؤثر
کردار ادا کر رہی ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کورونا سے متعلق پیپلز پارٹی مؤثر کردار ادا کر رہی ہے‘‘ جبکہ کورونا ہمارے متعلق بھی کافی مؤثر کردار ادا کر رہا ہے اور ایک صحتمند مقابلے کی فضا میں سارا کام ہو رہا ہے‘ اگرچہ کورونا کا کردار ہم سے ذرا زیادہ مؤثر ہے اور وہ لاک ڈائون وغیرہ کے باوجود پوری مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے جو ہمارے لیے بھی خاصا قابلِ رشک ثابت ہو رہا ہے اور امید ہے کہ جلد یا بدیر ہم بھی اس کی رفتار سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور دونوں میں کامیابی اور مؤثر ہونے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میاں رضا ربانی سے ملاقات کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ کی زیر قیادت کورونا کے خلاف
آگے بڑھ رہے ہیں: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ کی زیر قیادت کورونا کے خلاف آگے بڑھ رہے ہیں‘‘ جبکہ کورونا زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہمارے خلاف آگے بڑھ رہا ہے اور خطرہ ہے کہ دونوں میں ٹکڑ نہ ہو جائے ‘ورنہ کافی نقصان ہوگا کیونکہ فی الحال تو بندے مر رہے ہیں اگر ٹکرائو ہو گیا تو حکومت کو بھی اپنی جان کے لالے پڑ سکتے ہیں، اس لیے کوشش کریں گے کہ ٹکرائو سے بچنے کے لیے ایک طرف سے ہو کر نکل جائیں کیونکہ بندے تو اپنی آئی سے مریں گے‘ حکومت خدا نخواستہ بے موت ہی ماری جائے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پنجاب میں انتظامی بدحالی، سیاسی
تبدیلی ناگزیر ہے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں انتظامی بدحالی، سیاسی تبدیلی ناگزیر ہے‘‘ اگرچہ سیاسی تبدیلی سے ہمارے ہاتھ تو کچھ نہیں آئے گا، تاہم حکومت کی ہنڈیا تو پھوٹے گی اور اگر چوہدری پرویز الٰہی نے خواجہ برادران کی پیشکش قبول کر لی ہوتی تو یہ تبدیلی لازمی طور پر آ جانا تھی‘ لیکن انہوں نے گھر آئی نعمت کو ٹھکرا کر ہمیں بھی اس ثواب میں شریک ہونے سے محروم کر دیا، اگرچہ ہم تو پہلے ہی پہنچے ہوئے لوگ ہیں اور ہمیں مزید ثواب حاصل کرنے کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
احوالِ دیگر
ادھر پھلوں کی صورتحال یہ ہے کہ سٹرس کے خاتمے کے بعد اب شہتوت کی فصل اُتر رہی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد جامن بھی دستیاب ہونا شروع ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی چیکو بھی۔ آم اس دفعہ بس برائے نام ہی ملیں گے کہ بور بہت کم لگا تھا اور رہی سہی کسر آندھیوں نے پوری کر دی جبکہ سٹرس کے پھولوں کے پیچھے ان کے پھل بھی نکلنے کو تیار ہوں گے۔ رات کو گیدڑوں کا شور سنائی دیتا ہے اور صبح سے لے کر شام تک چڑیوں اور دیگر پرندوں کی چہکار بھی۔ گھاس بھی پہلے کی طرح جوان ہے اور پیڑ بھی سدا بہار۔ انار کے پھول نکل آئے ہیں، جنہوں نے اپنی ہی رونق لگا رکھی ہے۔ باقی درجہ بدرجہ خیریت ہے۔
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل:
بھول کر بھی جو کسی بات پہ اَڑ جاتا ہوں
تھوڑی ہی دیر میں آگے کہیں بڑھ جاتا ہوں
کسی اُلجھن سے نکل آتا ہوں گرتے پڑتے
تو کسی اور ہی تشویش میں پڑ جاتا ہوں
میری تکمیل کی روداد ہے بس اتنی سی
بنتے بنتے ہی بُری طرح بگڑ جاتا ہوں
جب بھی چلتی ہے ترے طرزِ تغافل کی ہوا
زرد پتّا سا کسی شاخ سے جھڑ جاتا ہوں
کُوچ کر جاتی ہیں جب دل سے امیدیں ساری
ہنستا بستا سا کوئی شہر اُجڑ جاتا ہوں
اتنی کچّی بھی نہیں میری سلائی، لیکن
زور کرتی ہے اُداسی تو اُدھڑ جاتا ہوں
طُول اتنا بھی نہیں کھینچتا اب نالۂ دل
دو گھڑی بیٹھ کے رونے سے نبڑ جاتا ہوں
اصلیت خوابِ ملاقات کی اتنی ہے کہ میں
ابھی ملتا بھی نہیں ہوں کہ بچھڑ جاتا ہوں
اپنے ہی آپ سے ہو جاتا ہوں قائم بھی، ظفرؔ
کسی اندر کی جو آندھی سے اُکھڑ جاتا ہوں
آج کامقطع
ظفر کچھ شور میں نے اور بھی کرنا تھا ، جانے کیوں
یہ چپ سی لگ گئی ہے بے صدا ہو نے سے پہلے ہی