ارکان ِاسمبلی کو عوامی فلاح میں بھرپور
حصہ لینا چاہیے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ارکان ِاسمبلی کو عوامی فلاح میں بھرپور حصہ لینا چاہیے‘‘ اگرچہ لیگی ارکان اسمبلی کو اس کا تجربہ حاصل نہیں ہے ‘کیونکہ انہوں نے ہماری طرح ہمیشہ اپنی فلاح و بہبود پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے اور اوّل خویش بعد درویش کے فارمولے پر عمل کیا ہے‘ جبکہ ہمارے اپنے لیے یہ بالکل ہی نیا کام ہے ‘جسے سیکھنے کی ہم کوشش کر رہے ہیں‘ جبکہ اپنے دور میں ہم سیکھتے کم اور سکھاتے زیادہ تھے‘ مثلاً :عوام کو جو سبق ہم نے سکھا دیا ‘وہ انہیں کبھی نہیں بھول سکتا ‘کیونکہ ان کی یادداشت بہت مضبوط ہے اور یہ عبرت ان کی آئندہ نسلوں تک کے لیے کافی ہے ؛حالانکہ ان کی آئندہ نسلوں کو بھی آنے سے پہلے سو بار سوچنا ہوگا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت اور میڈیا کے درمیان پُل کا کردار ادا کروں گا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''حکومت اور میڈیا کے درمیان پُل کا کردار ادا کروں گا‘‘ اور یہ پل انڈر پاس بھی ہو گا اور اوور ہیڈ بھی‘ یعنی حکومت اس کے اوپر سے بھی گزر سکے گی اور نیچے سے بھی اور پُل اوور(جرسی) کی طرح سردیوں میں اسے پہن بھی سکے گی‘ جبکہ میڈیا کے لیے یہ ایک طرح کا پل صراط ہی ہوگا اور وہ اسے اپنی مثبت کار گزاری ہی کی بنا پر پھلانگ سکے گی‘ اس لیے اسے چاہیے ہوگا کہ حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کرے اور بُرے کاموں کی پردہ پوشی‘ کیونکہ اللہ میاں کی ذات بھی ستار العیوب ہے ‘جبکہ میڈیا والوں کا شمار بھی اللہ کے خاص بندوں ہی میں ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ پیغام نشر کر رہے تھے۔
حکومت اسمبلی کو لاک ڈائون کر رہی ہے: خواجہ آصف
نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''حکومت اسمبلی کو لاک ڈائون کر رہی ہے‘‘ لیکن وہ مراعات نہیں دے رہی ‘جو لاک ڈائون زدہ لوگوں کو دی جانا ضروری ہیں‘ کیونکہ یہ سب کے سب سفید پوش لوگ ہیں اور دستِ سوال دراز نہیں کر سکتے‘ اس لیے ضروری ہے کہ کھانا اور دیگر امداد ان کے گھروں تک پہنچائی جائے‘ جبکہ اپوزیشن ارکان اسمبلی پر تو ویسے بھی کڑکی کا دور ہے اور کمیشن ‘ کک بیکس سمیت دیگر تمام نعمتیں ان کے لیے خواب و خیال ہو کر رہ گئی ہیں‘ یعنی صرف خوابوں میں میسر ہیں یا خیالوں میں؛ حتیٰ کہ ساری جمع پونجی اور نیک کمائی کی ساری بچت بھی ختم ہو چکی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک ِگفتگوتھے۔
18 ویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو بدترین آئینی
و سیاسی بحران پیدا ہوگا: مولانافضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''18 ویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو بدترین آئینی و سیاسی بحران پیدا ہوگا‘‘ یعنی وہی جو خاکسار نے پیدا کرنے کی کوشش کی ‘لیکن مارچوں اور دھرنوں کے باوجود گوہرِ نایاب ہاتھ نہ آیا‘ ماسوائے ان چند لاکھ روپوں کے جو بڑی جماعتوں کے دیئے گئے فنڈز میں سے بڑی مشکل سے بچائے تھے۔اور اب‘ یہ دوسرا سنہری موقعہ ہے ‘جس کے نتیجے میں وہ عالی شان بحران پیدا ہو سکتا ہے ‘جس کے لیے جملہ سیاسی جماعتوں سے رابطے جاری ہیں ‘کیونکہ ہمارا کام اب‘ رابطے کرنا ہی رہ گیا ہے اور کچھ تو اپوزیشن کے پاس کچھ رہا نہیں ہے اور اللہ میاں ‘اگر اسی میں برکت ڈال دیں‘ تو ان کے لیے یہ کون سا مشکل کام ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں اپوزیشن قائدین کو خبردار کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں گُلؔ فراز کی یہ غزل:
کبھی خاموش رہ کر بھی پکارا کافی ہوتا ہے
سمجھنے والوں کو تو بس اشارہ کافی ہوتا ہے
اضافہ اس میں کر لیتا ہوں میں اپنی طرف سے بھی
یہاں بس دیکھ لینا ہی تمہارا کافی ہوتا ہے
کبھی تو فائدہ بھی دینے لگ جائے گا وہ مجھ کو
کہ پہلے پہلے ویسے بھی خسارہ کافی ہوتا ہے
یہ ایسی مار ہے جس کا نشاں تک بھی نہیں پڑتا
پر اس میں آدمی اندر سے مارا کافی ہوتا ہے
وہ پہلے کی طرح وارے نیارے تو نہیں لیکن
میں کوشش کرتا رہتا ہوں گزارا کافی ہوتا ہے
تو ظاہر ہے کہ یہ سب چھوڑ کر کچھ اور کر لیں ہم
اگر نقصان اس میں بھی ہمارا کافی ہوتا ہے
سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے باتوں ہی باتوں میں
کسی کا ساتھ ہو تو پھر سہارا کافی ہوتا ہے
تمہارے وعدے ہوتے ہیں سیاست دانوں والے گُلؔ
حقیقت جن میں تھوڑی اور لارا کافی ہوتا ہے
آج کا مطلع
میں نے کب دعویٰ کیا تھا سر بسر باقی ہوں میں
پیش ِ خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں