"ZIC" (space) message & send to 7575

مقامیات، ہمیں تم سے پیار ہے، اور ابرار احمد

مقامیات
آفتاب اقبال نے اخبارات پھر بند کرا دئیے ہیں، اس لیے کالموں کو جاری رکھنا ایک جہاد سے کم نہیں ہوگا، اور اگر ہم اس جہاد میں کام آ گئے تو ہمارے لیے دعائے مغفرت ضرور کیجیے گا؛ چنانچہ اب ہم ہیں اور ہمارے اردگرد کے پیڑ، پرندے اور تروتازہ ہوائیں۔ اس دوران چڑیوں کے ایک جوڑے نے اے سی کے ایگزاسٹ میں بسیرا کر لیا ہے۔ قُمری کے جس روز درشن نہیں ہوتے ایک عجیب سی اداسی کا احساس ہوتا ہے۔ شہتوت کی فصل تقریباً ختم ہو چکی ہے اور حالیہ بارشوں سے درختوں اور گھاس پر ایک ہری تازگی کا غلاف چڑھ آیا ہے۔ کورونا کساد بازاری کی وجہ سے جملہ ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔ قاسم رضا صاحب سے گلو خلاصی کے لیے ایک تجویز یہ آئی تھی کہ انہیں طاعون میں مبتلا کر دیا جائے جس کے لیے مقامی چوہوں کی خدمات حاصل کی جائیں لیکن یہ تجویز پاس نہ ہو سکی کہ طاعون بذاتِ خود بہت بڑی وبا ہے، اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ کورونا وائرس کا انتظار کر لیا جائے۔ 
ہمیں تم سے پیار ہے
یہ ہمارے مایہ ناز فنکار عمر شریف کے لیے ایک ہدیۂ تبریک ہے جو انہیں کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے جس کے مصنف عارف افضال عثمانی ہیں اور جسے ادب دہلیز کراچی نے شائع کیا ہے۔ ٹائٹل پر مختلف انداز میں صاحبِ کتاب کی تصاویر شائع کی گئی ہیں ۔ کتاب کے اندر مختلف شخصیات مثلاً سنگیتا، گلوکار عظمت، نوجوت سنگھ سدھو اور معروف بھارتی اداکاروں کے ساتھ عمرشریف کی مختلف تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ کتاب میں فنونِ لطیفہ سے متعلق 101شخصیات کی جانب سے عمر شریف کو خراج محبت پیش کیا گیا ہے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
ہم نہیں جانتے
اس دنیا کو، جسے ہم نے آباد کر رکھا ہے
نہ ان پھولوں کو، جنہیں سینچ کر ہم خوبصورت بناتے ہیں
اور نہ ان درختوں کو
جن پر کبھی ہمارے ناموں کے شگوفے پھوٹے تھے
ہم نہیں جانتے
آسمانوں سے ادھر کیا ہے
اور مٹی کی گود سے اتر کر ہمیں اور کہاں جانا ہے
ٹھوکریں کھاتے ہوئے، ہم نہیں جان پاتے
سیدھی راہ کو
اور نہ یہ کہ اس پر
کیسے اور کیونکر چلا جا سکتا ہے
ہمیں نہیں معلوم
کب، کون منظر پر چھا جائے گا
اور کب معدوم
ہو جائے گا
کب کوئی ہم سے ملے گا
یا... بچھڑ جائے گا
ہم نہیں جانتے، ان دیواروں کو
جن سے ٹکرا ٹکرا کر ہم گرتے رہتے ہیں
نہ اس ابدی گیت کو
جس کی مدھم لہریں، ہمیں بے چین رکھتی ہیں
اور نہیں جانتے اس زمین سے اس قدر چاہت کا سبب
جہاں ہمیشہ ہمیں ٹھوکروں پر رکھا گیا
ہم نہیں جانتے
گزری ہوئی بستیوں اور رہگزاروں کو
جن پر ہم سے پہلے بارشیں برستی رہیں
جس جگہ پاؤں دھرتے ہیں
وہاں ہم کسے۔ بے آرام کرتے ہیں؟
جب ہم خود
روئیدگی کی صورت
زمین پر پھرسے نمودار ہوں گے
ہمیں کن موسموں کا سامنا ہوگا
ہم نہیں جانتے!
ہم صرف پہچانتے ہیں
بادلوں اور ہواؤں کو
ساتھ چلتے قدموں کی چاپ اور لگنے والی ٹھوکروں کو
سامنے کے چہروں اور دیواروں کی رنگت کو
ہمارے گرد دھند ہے، گہری اور دبیز
ہم نہیں جانتے
مٹی اور محبت کی مہک میں
ہم کہاں موجود ہیں؟
آج کا مطلع
لب پہ تکریمِ تمنائے سبک پائی ہے
پسِ دیوار وہی سلسلہ پیمائی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں