اپوزیشن کی سیاست ختم‘ سٹیل ملز کیلئے اچھا قدم اٹھایا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کی سیاست ختم‘ سٹیل ملز کے لیے اچھا قدم اٹھایا‘‘ البتہ اگر کوئی اسے غلط قرار دے دے تو الگ بات ہے ‘کیونکہ ویسے بھی ہم جو اپنی طرف سے اچھا قدم اٹھاتے ہیں‘ اسے بُرا ہی قرار دیا جاتاہے‘ جیسا کہ ہم بڑی محنت سے اپوزیشن ارکان کو پکڑ کر اندر کرتے ہیں‘ انہیں بری کر دیا جاتا ہے اور وہ ہمارے سینے پر مونگ دلتے ہوئے‘ ہمارے سامنے دندناتے پھرتے ہیں؛ حالانکہ مونگ کے علاوہ اور بھی متعدد دالیں ہیں ‘جو ہمارے سینے پر دلی جا سکتی ہیں‘ جبکہ مسور کی دال وہ اس لیے نہیں دلتے کہ کہیں انہیں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وفاقی وزیر علی زیدی سے ملاقات کر رہے تھے۔
جنوبی پنجاب کے عوام کا احساس محرومی ختم کر دیا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزار نے کہا ہے کہ ''جنوبی پنجاب کے عوام کا احساس محرومی ختم کر دیا‘‘ اور یہ میں نے ان اضلاع کے فضائی معائنے کے دوران دیکھا ہے اور صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کا احساس محرومی دور ہو چکا اور اب وہ پوری طرح ہشاش بشاش ہیں‘ اسی طرح اگر صوبے کے کچھ اور علاقوں نے احساس محرومی کی شکایت کی تو میرا ہیلی کاپٹر اس مقصد اور خدمت کیلئے حاضر ہے‘ نیز ایک دو بار وزیراعظم نے بھی مجھ سے ہیلی کاپٹر مانگا تھا‘ لیکن میں نے معذرت کرلی کہ پہلے ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ دائر دیا گیا تھااور اس طرح میں نے یوں سمجھیے کہ وزیراعظم کو ایک مقدمے سے بچا لیا ہے۔ آپ اگلے روز اپنے دورے کے دوران رحیم یار خان سے اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
عمران وژن سے عاری‘ خیالی دنیا میں
رہنے والے حکمران ہیں : نیئر بخاری
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما نیئر بخاری نے کہا ہے کہ ''عمران وژن سے عاری‘ خیالی دنیا میں رہنے والے حکمران ہیں‘‘ جبکہ انہیں چاہیے تھا کہ وژن کے اس فقدان پر کچھ وژن ہم سے ہی لے لیتے ‘کیونکہ ہمارا وژن صرف خدمت ہے‘ جو ہم دونوں ہاتھوں سے کیا کرتے ہیں‘ کیونکہ یہ کام ایک ہاتھ سے ممکن ہی نہیں اور اگر تیسرا ہاتھ ہوتا تو ہم اس کو بھی بروئے کار لاتے کہ یہ کام اس قدر وسیع و عریض ہے کہ تھوڑے ہاتھوں سے انجام دیا ہی نہیں جا سکتا اور یہ بھی ہمارے قائد کی کرشمہ سازی ہے کہ صرف دو ہاتھوں ہی سے خدمت کا پہاڑ کھڑا کر لیا گیا‘ جسے کھودنے سے کسی کو ایک چوہا بھی دستیاب نہیں ہوا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
طبی معائنہ کے لیے برطانیہ آیا ہوں‘
جلد واپس آئوں گا: جہانگیر ترین
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ ''طبی معائنہ کے لیے برطانیہ آیا ہوں‘ جلد واپس آئوں گا‘‘ کیونکہ دنیا بھر میں لندن ہی وہ واحد جگہ ہے ‘جہاں درست طبی معائنہ ہو سکتا ہے ‘جبکہ اس سلسلے میں نواز شریف اور اسحاق ڈار کی روشن مثالیں پہلے ہی موجود ہیں‘ لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ لندن ایک ایسا کمبل ہے کہ جسے چھوڑ بھی دیں تو یہ آپ کو نہیں چھوڑتا‘ لیکن میں پوری کوشش کروں گا اور اسی مقصد کیلئے اپنے بیٹے کو بھی ہمراہ لایا ہوں‘ تا کہ ہم ملکر زور لگا سکیں اور اس کمبل سے گلو خلاصی کر سکیں‘ جبکہ ابتدائی معائنہ کے بعد صرف ڈیپریشن اور مایوسی ہی تشخیص کیے گئے ہیں؛ حالانکہ میرے پیٹ میں بھی ہر وقت گڑ گڑ ہوتی رہتی ہے‘ جس پر ڈاکٹرز نے توجہ نہیں دی۔ آپ اگلے روز لندن سے ٹویٹ پیغام نشر کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
رات کی تاریکی میں
رات کی تاریکی میں/کوئی راستہ/جا نکلتا ہے‘ ان زمینوں کو/جن پر‘ ہمارے لیے/آسودگی کی نہریں بہتی ہیں/اور جہاں/کوئی اپنے کشادہ بازو پھیلائے/ہمارا انتظار کرتا ہے/کوئی راستہ‘ لق و دق صحرا کی جانب/جس میں پیاس/ حلق میں کانٹے بھر دیتی ہے/اور سار بانوں کے گیت/دل سے لپٹ کر آنسو بہاتے ہیں---کوئی جا نکلتا ہے/دریا کے کناروں کو/آہستہ خرام لہروں کو/جن پر ملّاح‘ پتوار چلاتے /اور دور سے ہاتھ ہلاتے ہیں----
کوئی راستہ جا نکلتا ہے/ان صحنوں کی طرف/جن میں ہم کبھی آباد تھے/ان کمروں کو/جن میں لالٹین کی مدھم روشنی/ہمارے سایوں کو لمبا کر دیتی ہے----
کوئی ان دیاروں کی جانب/جن کے خدو خال‘ پہچانے نہیں جاتے/اجنبی چہرے/دھند میں تیرتے پھولوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں/کوئی راستہ‘ مٹی میں اڑتا چلا جاتا ہے/کوئی شخص ایک پگڈنڈی‘ خوف کے کہرے میں/جس پر چلتے ہوئے/قدم ڈولنے لگتے ہیں/بھاگنا چاہیں‘ تو بھاگا نہیں جاتا/کوئی راستہ‘ راستہ نہیں لگتا/دھوئیں میں گرتے سائے کی صورت----
بس آنکھیں بھر آتی ہیں/پائوں تھم جاتے ہیں----
اور ایک راستہ/اس کے گھر کی سونی دہلیز کو جاتا ہوا/جہاں دیواروں اور اندھیرے کے عقب میں / آنسو بہاتے‘ معدوم ہوتے ہوئے /میں----اسے دیکھتا/اور آوازیں دیتا ہوں/اس راستے پر/سب سے زیادہ روشنی ہے!
آج کا مقطع
گزر گئی تھی مجھے کچل کر ظفرؔ کوئی شے
وگرنہ میں تو کہیں کنارے پہ جا رہا تھا