شہباز شریف کا معائنہ شوت خانم یا
آغا خان ہسپتال سے کرایا جائے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کا معائنہ شوت خانم یا آغا خان ہسپتال سے کرایا جائے‘‘ اگرچہ وہاں سے بھی وہ اپنے حق میں رپورٹ کروا لیں گے جیسا کہ میاں نواز شریف کا شوکت خانم سے کرایا گیا تھا جبکہ میرا اس سے مطلب اور مقصد صرف یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر بات کا کوئی مقصد بھی ہو جبکہ ملکِ عزیز میں بہت کچھ توبے مقصد ہی ہو رہا ہے بلکہ ہمیں تو ہمارا اپنا بھی کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ ہم سے وہ کام کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ہمیں آتے ہی نہیں ہیں اور ایسے کاموں کا ایسے آدمیوں سے کرائے جانے کا مطلب بالکل واضح ہے ‘ جس سے اوپر والوں کو بھی فکر مندی کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان نے عوامی ہمدردی کا آئینہ دار بجٹ دیا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عمران خان نے عوامی ہمدردی کا آئینہ دار بجٹ دیا‘‘ کیونکہ اس میں صرف ہمدردی ہی ہے ، ریلیف کہیں نظر نہیں آتا،اس لیے عوام کو چاہیے کہ اس ہمدردی ہی کو ریلیف سمجھیں کیونکہ ساری بات سمجھنے اور دل کو سمجھانے والی ہی ہے‘ جبکہ اسے حیوانی ہمدردی بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ انسان حیوانِ ناطق ہی تو ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ وہ ناطق ہونے کے باوجود بھی حیوان ہی ہے اس لیے کسی کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ ہمدردی کے اس آئینہ دار بجٹ میں عوام آئینہ بھی دیکھ سکتے ہیں جس سے انہیں معلوم ہوگا کہ ان میں کس قدر تبدیلی آ چکی ہے جو کہ اسی تبدیلی کا ایک حصہ ہے، جو ہم لا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ پیغام نشر کر رہے تھے۔
پنجاب کے آدھے سے زیادہ مریض لاہور میں ہیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''پنجاب کے آدھے سے زیادہ مریض لاہور میں ہیں‘‘ کیونکہ خاکسار کی کاوشوں سے لاہور میں جو ترقی ہوئی ہے، اس میں کورونا کی ترقی بھی شامل ہے‘ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ ابھی مزید ترقی کی امید بھی کی جا سکتی ہے اور ہم نے امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا بلکہ جو چیز بھی ہاتھ لگے ، ہم اسے چھوڑنے کے روا دار نہیں ہیں اور ہماری حکومت اس کی بہت بڑی مثال ہے کہ وہ تو ہمیں چھوڑتی ہے، ہم ہی اسے نہیں چھوڑتے۔ بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ یہ بات ابھی تک ہماری سمجھ میں بھی نہیں آ سکی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں بشارت راجہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
کتابی سلسلہ ''تسطیر‘‘
اسے ہمارے دوست اور شاعر نصیر احمد نصیر جہلم سے نکالتے ہیں۔ موجودہ پرچہ اس کا نواں شمارہ ہے جو 653 صفحات پر مشتمل ہے۔ تراجم سمیت منظومات کی تعداد 129 ہے اور اس بحرِ ذخّار میں سے کام کا موتی نکالنے کے لیے گہری غوطہ زنی کی ضرورت ہے جبکہ نتیجہ زیادہ تر ناکامی ہی کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ حصۂ نثر ہے جس نے اس جریدے کا بھرم رکھا ہوا ہے جس کے لکھنے والوں میں گوپی چند نارنگ، نظام صدیقی، عتیق اللہ، ناصر بغدادی، محمد حمید شاہد، ناصر عباس نیّر، مستنصر حسین تارڑ، سلمیٰ اعوان اور دیگران شامل ہیں جبکہ شعرا میں محمد اظہار الحق، گلزار و دیگران ہیں۔ افسانوں کے حصہ میں رشید امجد، محمود احمد قاضی، ناصر بغدادی، نیلم احمد بشیر، مشرف عالم ذوقی، بشریٰ اعجاز، نعیم بیگ، فہیم اختر، امجد شیخ نمایاں ہیں۔ شعبۂ تراجم اس کے علاوہ ہے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
وہ بھی تم ہو گے
وہ بھی تم ہی تھے/ مجھے اولین جدائی کی/ تنگ و تاریک گھاٹیوں میں/ دیواروں سے ٹکراتے ہوئے/ دیکھتے/ میری آوارگی سے اکتائے ہوئے/ راستوں پر/ میرے لیے پھول کھلاتے
اور یہ بھی تم ہو/ اُجلے پیروں میں سرخ جوتی/ اور جگمگاتے، لہراتے لباس میں/ مسلسل رقصاں/ والہانہ پن سے اچانک/ گھوم کر رکتے/ مجھے دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے/ سمندر پار کے بلاوے پر/ ایک تاریک سیارے سے/ روانہ ہوتی ہوئی روشنی
ایک خالی ہو جانے والے گھر میں/ رہ جانے والی مہک۔۔۔۔/ تپائی پر پڑے چائے کی خالی کپ/ بجھے سگرٹوں سے بھرا۔۔۔ ایش ٹرے/ لمس کی سرمئی دھند میں/ ایک ٹوٹی ہوئی محفل کی پرچھائیں/ موڑ سے دکھائی دینے والے/ اونچی کرسی کے کمرے کی/ تاریک کھڑکیوں اور دیواروں میں/ بھٹکتی ہوئی آواز
خالی سیٹ پر/ پڑی رہ جانے والی خوشبو اور ویرانی۔۔۔۔/ اور وہیں کہیں/ تماشا بن جانے والے/ کی آنکھ میں/ اترنے والا تیر/ جو گھر کو لوٹتے ہوئے، گر گیا/ تمہارے سامنے/ کسی اور آسمان کے نیچے/ کبھی مل سکنے کا آزار اٹھائے ہوئے/ اور وہ بھی تم ہو گے
جو کبھی ۔۔۔۔ بارشوں سے دھڑکتی کھڑکی کے شیشے سے/ اپنی نم ناک آنکھوں سے/ میری جانب دیکھو گے/ جب میں۔۔۔۔/ دنیا کی خوبصورتی/ برداشت کرنے سے/ انکار کرنے والا ہوں گا
آج کا مقطع
ظفر، سفر ہی یہ لا حاصلی کا تھا سارا
سو ، واپس آ کے محبت کی گرد جھاڑی ہے