ایمانداری کی حکومت میں کوئی
خوشحالی نہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ایمانداری کی حکومت میں کوئی خوشحالی نہیں‘‘ کیونکہ یہ بے ایمانی کی حکومت ہی میں پیدا ہو سکتی ہے جیسا کہ ہمارے دور میں تھی جبکہ بھائی صاحب کا اعلان بھی تھا کہ کرپشن کے بغیر تیز رفتار ترقی ممکن نہیں ہے؛ چنانچہ وہ تیز رفتار ترقی ہم سے شروع ہو کر ہم پر ہی ختم ہو گئی اور ابھی عوام تک پہنچنے ہی والی تھی کہ ایک سازش کے تحت ہماری حکومت ختم کر دی گئی جبکہ یہ ہماری ترقی اور خوشحالی بھی کسی سے ہضم نہیں ہو رہی اور جب تک حکومت ہمارے جیسے کام نہیں کرتی خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت چلی جائے، نظریے
پر سمجھوتہ نہیں ہوگا: شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''حکومت چلی جائے، نظریے پر سمجھوتہ نہیں ہوگا‘‘ اور اس لیے نہیں ہوگا کہ فی الحال کوئی نظریہ موجود ہی نہیں ہے تو اس پر سمجھوتہ کیونکر ہو سکتاہے؛ چنانچہ نظریے کی تلاش کے لیے ہم نے سنجیدگی سے اقدامات شروع کر دیئے ہیں اور جونہی کوئی نظریہ دستیاب ہوتا ہے، یہ غور کیا جائے گا کہ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے یا نہیں جبکہ ہماری کوشش ہوگی کہ کوئی بنا بنایا نظریہ ہی کہیں سے مل جائے اور اُس پر گزارہ کرنے کی کوشش کی جائے جس سے وقت بھی بچے گا اور لاگت بھی کم آئے گی‘ بلکہ کسی مفت نظریے کو ترجیح دی جائے گی۔ آپ اگلے روز فارن سروسز اکیڈمی کے دورے کے موقعہ پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
بے خبر سارجنٹ
ایک صاحب اوور سپیڈنگ کرتے ہوئے کہیں جا رہے تھے کہ سارجنٹ نے انہیں روک لیا اور ٹکٹ دینے کے لیے نام پوچھا۔
وہ بولے:''مجھے پریشان نہ کرو میری ڈگی میں لاش ہے اور میں بہت جلدی میں ہوں‘‘۔
''ڈگی میں لاش ہے؟‘‘ سارجنٹ نے چلّا کر کہا اور فون پر اپنے باس کو سارے واقعے کی اطلاع دی‘ جس نے کہا کہ میں پانچ منٹ میں پہنچتا ہوں؛ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد وہ آ گئے اور ان صاحب سے ڈگی کھولنے کو کہا۔
ڈگی کھولی گئی تو اس میں کچھ نہیں تھا۔ وہ بولے: ''لاش کدھر ہے؟‘‘
''کون سی لاش؟‘‘ ان صاحب نے جواب دیا۔''جو میرے سارجنٹ نے بتائی تھی‘‘ جواب دیا۔ جس پر وہ صاحب بولے:''اس احمق نے آپ کو یہ بھی بتایا ہو گا کہ میں اوور سپیڈنگ کر رہا تھا‘‘۔
بے خبر گھوڑا
ایک صاحب کسی قریبی شہر جا رہے تھے کہ راستے میں ان کی گاڑی بند ہو گئی۔
وہ نیچے اترے، بونٹ کھولا تو آواز آئی:''اس کا کاربوریٹر خراب ہے‘‘۔ان صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا، صرف ایک گھوڑا سڑک کے کنارے گھاس چر رہا تھا۔ وہ صاحب دوبارہ انجن پر جھُکے تو پھر آواز آئی۔'' تمہیں کہا نا کہ اس کا کاربوریٹر خراب ہے‘‘ انہوں نے دیکھا کہ گھوڑے کے ہونٹ ہل رہے تھے۔
وہ صاحب اس قدر سراسمیہ ہوئے کہ گاڑی کو وہیں چھوڑ کر شہر کی طرف بھاگے جو قریب ہی تھا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک کولڈ کارنر میں کولڈ ڈرنک کا آرڈر دیا اور اندر جا کر بیٹھ گئے۔ وہاں دو آدمی پہلے سے بیٹھے تھے جنہوں نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا کہ کیا بات ہے، آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں؟ تو ان صاحب نے اپنی کہانی سنانا شروع کی جس پر وہ دونوں مسکراتے جاتے۔
جب انہوں نے اپنا بیان ختم کیا تو وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے اور ایک صاحب بولے:''ہم اس گھوڑے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، وہ بکواس کرتا ہے، اسے گاڑی کے پرزوں بارے کچھ پتہ نہیں ہے‘‘۔
تقسیم ِکار
ایک خاتون ایک تنگ سی سڑک پر کہیں جا رہی تھی کہ اس کی گاڑی بند ہو گئی۔ وہ نیچے اتری بونٹ اٹھایا اور انجن کو دیکھنے لگی۔ اتنے میں پیچھے سے ایک صاحب راستے کے لیے ہارن پر ہارن دیئے چلے جا رہے تھے۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی جس دوران وہ صاحب ہارن بجائے چلے جا رہے تھے۔
وہ دوبارہ انجن کی طرف متوجہ ہوئی لیکن گاڑی سٹارٹ کرنے میں کامیاب نہ ہوئی جبکہ وہ صاحب مسلسل ہارن بجائے چلے جا رہے تھے۔ وہ اُن کے پاس پہنچی اور بولی:
پلیز، میری گاڑی سٹارٹ کر دیں، آپ کی گاڑی کا ہارن میں بجاتی ہوں‘‘۔
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل:
آخر کو اوقات میں آنا بنتا ہے
کھِلنے والے کا مُرجھانا بنتا ہے
شکل دیکھ کر دھوکا دینے والے کی
مجبوراً دھوکا تو کھانا بنتا ہے
مرنے لگتا ہوں تو پھر سے جینے کا
کوئی نہ کوئی نیا بہانہ بنتا ہے
مہمانی پر بے شک وہ تیار نہ ہو
اُس کے لیے بستر تو بچھانا بنتا ہے
دل کی حالت ابھی خراب نہیں اتنی
رفتہ رفتہ ہی ویرانہ بنتا ہے
وہ جو نشانہ پر ہوتا ہی نہیں کبھی
وہ بھی کبھی کبھار نشانہ بنتا ہے
باقی رہا نہ ہو اگلا سا تعلق بھی
گاہے بگاہے آنا جانا بنتا ہے
میری موت پہ، اخلاقاً بھی، جانِ ظفرؔ
ایک آدھ آنسو تو بہانا بنتا ہے
آج کا مقطع
ظفرؔ یہ کاوشیں جس کی تلا ش کے لیے ہیں
اُسی کا نام نہیں اشتہار میں میرے