"ZIC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل

بلاول اور زرداری پانی سے پکوڑے تلنا بند کریں: فیاض چوہان
صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''بلاول اور زرداری پانی سے پکوڑے تلنا بند کریں‘‘ کیونکہ پانی سے پکوڑے تلے نہیں‘ ابالے جاتے ہیں‘ اس لیے یہ پکوڑوں کا بھی ضیاع ہے اور پانی کا بھی ‘جبکہ کراچی میں پانی پہلے ہی کمیاب ہے اور جس کی وجہ یہی ہے کہ ان دونوں حضرات نے پانی میں پکوڑے تل تل کر پانی ہی کا قحط پیدا کر دیا ہے؛ حالانکہ دونوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے اور یہ پکوڑے تلنے کے لیے جتنا چاہیں تیل خرید سکتے ہیں ‘بلکہ نو من تیل خرید کر رادھا کو نچا بھی سکتے ہیں‘ جبکہ صوبے کے لوگوں کی حالت کس قدر قابل ِرحم ہے کہ انہیں پانی میں تلے ہوئے پکوڑے کھانا پڑتے ہیں اور پانی کی جگہ انہیں پکوڑے ہی چوس چوس کر دینے پڑتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
کٹھ پتلی کو وزیراعظم ہائوس سے کھینچ کر باہر نکالنا پڑیگا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کٹھ پتلی کو وزیراعظم ہائوس سے کھینچ کر باہر نکالنا پڑے گا‘‘ لیکن فی الحال ہمارے پاس اس کا کوئی انتظام ہی نہیں ‘ کیونکہ ابھی اتنی بڑی کرین دستیاب نہیں‘ جو یہ کام کر سکے‘ جبکہ اتحادی بھی چار دن شور و غوغا کر کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں ‘ جبکہ ہمیں اپنی پڑی ہوئی ہے اور ہمیں ایک بار پھر سرخرو ہونے کے لیے جیل بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اب تو والد صاحب کو مردِ حُر کا خطاب دینے والا بھی اس دنیا میں موجود نہیں ہے‘ اس لیے ساتھ ساتھ انہیں کوئی نیا خطاب دینے کی فکر بھی کرنی چاہیے ‘کیونکہ پچھلی بار وہ اسی خطاب پر جیل میں دس سال نکال آئے تھے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پہلا وصال
یہ فاروق حیدر کی غزلوں کا مجموعہ ہے‘ جسے خوشحال پبلی کیشنز نے چھاپا ہے۔ انتساب والد صاحب اور مدینہ میں پہلی صبح کے نام ہے۔ ٹائٹل اکرام الحق سلہری کا تیار کردہ ہے۔ پیش شاعر کا بقلم خود ہے۔ کلام میں پختگی کا احساس ہوتا ہے اور یہ غالباً موصوف کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کے چند شعر دیکھیے:؎
وہ درد کے پھولوں کے مہکنے کی گھڑی تھی
تعبیر مرے خواب کے پہلو میں کھڑی تھی
رنگوں کے کنول ہنستے ہوئے جھُوم رہے تھے
خوشبو سی کسی شوخ کی‘ شاخوں میں جڑی تھی
وہ ادب کا دریا تھا جسے چھونے کی خاطر
سورج سے جدا ہو کے کرن ٹوٹ پڑی تھی
کوئی بات نہیں!
ٹرین میں بہت رش تھا اور ایک بزرگ مسافر فرش پر ہی لیٹا ہوا تھا کہ کسی نے اپنا صندوق اوپر برتھ پر رکھ دیا۔ بزرگ نے اس سے کہا: نیچے میں لیٹا ہوا ہوں اور آپ نے اوپر اپنا صندوق رکھ دیا ہے‘ یہ گر بھی سکتا ہے۔ تو اس نے جواب دیا: کوئی بات نہیں‘ اس میں ٹوٹنے والی کوئی چیز نہیں ہے!
ترتیب
ہماری ایک سیاسی شخصیت کے حوالے سے بعض ستم ظریفوں نے جو لطیفے گھڑ رکھے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نوجوانی کے عالم میں وہ ٹرین پر لاہور سے بہاولپور جا رہے تھے۔ رات کا رقت تھا اور سردی کا موسم۔ وہ غلطی سے کسی چھوٹے سٹیشن پر اُتر گئے اور اس کا احساس انہیں اس وقت ہوا جب ٹرین جا چکی تھی۔ انہوں نے سٹیشن ماسٹر سے پوچھا؛ یہاں ریسٹ ہائوس ہے؟ جہاں میں رات بسر کر سکوں تو اس نے جواب دیا کہ چھوٹا سٹیشن ہے‘ کوئی ریسٹ ہائوس تو نہیں‘ قریب ہی ایک گائوں ہے‘ وہاں چلے جائیے۔ شاید آپ کا مسئلہ حل ہو جائے۔ ان صاحب نے اٹیچی سر پر رکھا اور گائوں جا پہنچے۔ وہاں ایک دروازے پر دستک دی۔ ایک آدمی باہر نکلا تو اس نے پوچھا: کیا بات ہے؟ ان صاحب نے کہا:میں یہاں رات بسر کر سکتا ہوں؟ جس پر اس شخص نے کہا کہ ہمارے گھر میں تو عورتیں ہیں‘ ہم آپ کو نہیں ٹھہرا سکتے۔ وہ اگلے دروازے پر گئے تو وہاں بھی انہیں وہی جواب ملا۔ انہوں نے سوچا شاید سوال کرنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہے؛ چنانچہ انہوں نے اگلے دروازے پر جا دستک دی تو اندر سے ایک آدمی نکلا اور بولا: کیا بات ہے؟ آپ کے گھر میں عورتیں تو نہیں ہیں؟ انہوں نے پوچھا‘ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس آدمی نے پوچھا۔ تو نوجوان نے جواب دیا: میں یہاں آج کی رات بسر کرنا چاہتا ہوں!
جواب
سرائیکی پٹّی سے آگے سندھ کی طرف نکلیں تو وہاں ریلوے سٹیشنوں پر مالٹے گن کر بھی بیچتے ہیں اور تول کر بھی۔ ایک نستعلیق بزرگ نے جب گاڑی ایک سٹیشن پر رکی تو انہوں نے ایک شخص‘ جو مالٹوں کی چھابڑی لگائے بیٹھا تھا‘ سے پوچھا: کیوں میاں! عدداً بیچتے ہو یا وزناً؟ تو چھابڑی والا بولا: نہیں جناب!میں تو صرف مالٹے بیچتا ہوں!
اور‘ اب آخر میں اقتدارؔ جاوید کا تازہ کلام:
لیے پھرتا ہے یہ آزار اپنے راستے کا
فقط پانی ہے واقف کار اپنے راستے کا
میں دیکھے جا رہا ہوں ساری چیزوں کو دوبارہ
ہوا اک خواب میں دیدار اپنے راستے کا
کوئی لمبے سفر پر دُور جانا چاہتا ہے
کہ ہر کوئی ہے خود مختار اپنے راستے کا
کٹی اک اور ہی نشے میں ہمراہی ہماری
مرے ساتھ آ گیا بیزار اپنے راستے کا
سفر کو لوگ جو اجڑے ہوئے ملے ان کو
بنا دیتا ہے لالہ زار اپنے راستے کا
جُڑی جاتی ہے مستی سے بھری مہکار کوئی
مسافر آپ ہے گلزار اپنے راستے کا
پہنچنے یہ نہیں دے گا کسی کو بھی کہیں پر
کہ مروائے گا خوش گفتار اپنے راستے کا
کئی قرنوں کے بعد اپنے کیے تھے پتّے ظاہر
بتایا میں نے آخر کار اپنے راستے کا
بناتا ہوں گھنی چھائوں تو خود ہی بیٹھتا ہوں
شجر یوں کوئی سایہ دار اپنے راستے کا
چلے آئو ابھی چپ چاپ میرے پیچھے پیچھے 
کروں گا ایک دن اظہار اپنے راستے کا
آج کا مقطع
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اُس نے ظفرؔ
اتنا چالاک تھا‘ مارا مجھے تنہا کر کے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں