"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، اقتباس، نقاط، وغیرہ وغیرہ اور تازہ غزل

پاکستان اور عمران خان ایک ساتھ نہیں چل سکتے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پاکستان اور عمران خان ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ اور دونوں کو ایک دوسرے سے کم از کم چھ میٹر کا فاصلہ رکھ کر چلنا چاہیے کیونکہ ویسے بھی کورونا وائرس کا زمانہ ہے اور اگر حکومت خود احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرے گی تو پھر اور کون کرے گا اور حکومت کی ایسی بدپرہیزیوں ہی نے ملک کو اس حالت تک پہنچایا ہے؛ چنانچہ یہ بے حد ضروری ہے کہ حکومت اپنے اور ملک کے درمیان لاک ڈائون کی پابندی پر پوری طرح سے عمل کرے تا کہ پاکستان کو اس وبا سے بچایا جا سکے کیونکہ اس طرح وہ احتساب کے ادارے کے ساتھ مل کر ہماری بھی خدمت یکسوئی سے کر سکتی ہے۔آپ اگلے روز یونینز سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے۔
حکومتی حمایتی اور مخالفین دونوں ڈانواں ڈول ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کے حمایتی اور مخالفین دونوں ڈانواں ڈول ہیں‘‘ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ خاکسار کو ملک کی خدمت کا موقعہ دیا جائے کیونکہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہوا ہو تو میں ہرگز ڈانواں ڈول نہیں ہوتا، اگرچہ جب سے میں نے حکومت کے خلاف مارچوں اور دھرنوں وغیرہ کا سلسلہ شروع کیا ہے پیٹ بھر کر کھانا ذرا کم ہی نصیب ہوا ہے اور وہ بھی دونوں بڑی پارٹیوں کے تعاون کے سبب سے ممکن ہوا ہے جو ایک بار شروع ہوتا ہے تو جلدی ہی رُک جاتا ہے اور میرے ڈانواں ڈول ہونے کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس لیے اپوزیشن اگر خود ڈانواں ڈول ہونے سے احتراز نہیں کر سکتی تو کم از کم میرا ہی کچھ خیال کرے۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بڑے میاں سبحان اللہ
( حسین احمد شیرازی کی تحریر سے اقتباس)
آپ نے اکثر لوگوں سے یہ کہتے سنتا ہو گا کہ ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سفید بال عمر کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں، عقل کی نہیں۔ کئی پچاس سال کی عمر کے افراد تیس سال بعد صرف اسّی برس کے ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طویل سفر میں حکمت یا دانائی کا کوئی پڑائو نہیں آتا۔ اس نوع کے ماہ و سال کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جب ایک شخص اپنی ملازمت کی مدت کی بنیاد پر کسی استحقاق کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اس سے اس عرصے کے تعیّن کا کہا گیا تو بولا کہ یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن میں اپنے فلاں رشتہ دار سے پہلے اس دفتر میں آیا تھا۔ پھر متعلقہ عزیز سے پوچھا گیا کہ تم کب سے نوکری کر رہے ہو ؟تو اس نے اپنی آمد فیروز سے پہلے بتائی جبکہ اس عزیز اور فیروز دونوں کو بھائی صاحب کے اس دفتر میں آنے کا پتا نہیں تھا۔ پولیس نے دو دوستوں کو آوارہ گردی کرتے ہوئے پکڑا اور ایک سے اس کا ایڈریس پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کا کوئی گھر ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہی سوال دوسرے سے کیا گیا تو وہ بولا کہ میرے دوست نے جو جگہ بنائی ہے، میں اس کی دوسری منزل پر رہتا ہوں!
نقاط
یہ جریدہ فیصل آباد سے قاسم یعقوب نکالتے ہیں جس کا یہ 17 واں شمارہ ہے۔ 519 صفحات پر مشتمل یہ ایک وقیع دستاویز ہے جسے برصغیر کے اہم تخلیق کاروں کا تعاون حاصل ہے۔ آغاز میں مستنصر حسین تارڑ کے خس و خاشاک زمانے سے ایک اقتباس پیش کیا گیا ہے۔ حصۂ نثر میں ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر ناصر عباس نیّر ، عرفان جاوید اور احمد جاوید کی تحریریں ہیں۔ فلم نگر پر دو مضامین ہیں، اس کے علاوہ مختلف حوالوں سے محمد حمید شاہد، امجد علی شاکر، اجمل کمال کی تخلیقات ہیں جبکہ کتاب مطالعہ کے عنوان سے مختلف کتابوں پر تبصرے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ''وبا کے دنوں میں‘‘ کے عنوان سے ایک الگ سلسلہ ہے‘ جس کے بعد عالمی ادب سے تراجم ہیں۔ افسانوں میں محمد الیاس، آصف فرخی اور مبین مرزا نمایاں ہیں جبکہ علی یاسر کی یاد میں کے عنوان سے ایک الگ گوشے کا اہتمام کیا گیا ہے اور گل خان نصیر کے لیے خصوصی گوشہ ہے۔ نظموں میں سرمد صہبائی، عذرا عباس، سعادت سعید، علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر اور سعید احمد نمایاں ہیں۔ غزلیں نئے اور غیر معروف لوگوں کی شامل کی گئی ہیں جو ایک خوشگوار حیرت میں مبتلاکرتی ہیں کہ قحطِ غزل کے اس زمانے میں عمدہ اشعار خاصی مقدار میں دستیاب ہیں جو آئندہ کسی نشست میں پیش کروں گا۔
ذہانت اور خوبصورتی
اُس وقت کی ایک خوش شکل فلم ایکٹریس نے برنارڈ شاء سے کہا کہ اگر تم میرے ساتھ شادی کر لو تو جو بچے پیدا ہوں گے وہ میرا حسن اور تمہاری ذہانت لے کر پیدا ہوں گے۔ شاء نے جواب دیا کہ اگر وہ میرا حُسن اور تمہاری ذہانت لے کر پیدا ہو گئے تو؟
شیکسپیئر سے بڑا ادیب
برنارڈ شاء نے ایک دفعہ کہا کہ میں شیکسپیئر سے بڑا ادیب ہوں کیونکہ میں اس کے کندھوں پر کھڑا ہوں! 
اور اب آخر میں یہ تازہ غزل:
آتا ہی نہیں کوئی سِرا ہاتھ ہمارے
آپس میں الجھتے ہیں خیالات ہمارے
اک تیرے بگڑ جانے سے کس کو یہ خبر تھی
اس طرح بگڑ جائیں گے حالات ہمارے
تُو ایک چمکتا ہوا سورج تھا ہمارا
تجھ سے ہی دمکتے رہے ذرّات ہمارے
تنہا کیا ہے تو نے کچھ اس طرح سے ہم کو
ہوتے نہیں خود بھی کبھی ہم ساتھ ہمارے
ہو جیسے ہر اک شے پہ کسی اور کا قبضہ
یہ جوش ہمارا ہے نہ جذبات ہمارے
وہ جس نے کبھی بات بھی سمجھی نہ ہماری
کس طرح سمجھتا وہ اشارات ہمارے
اک عمر ہوئی صبح کا دیکھے ہوئے چہرہ
اندر ہی کہیں چلتی رہی رات ہمارے
سب جیسے کوئی اور زباں بول رہے تھے
پلّے نہ کسی کی بھی پڑی بات ہمارے
کچھ وہ بھی، ظفرؔ، صاف نظر آئیں گے کس کو
رہ جائیں گے باقی جو نشانات ہمارے
آج مقطع
حسن حویلی پر ظفرؔ
پھول کھلا مسمار کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں