پاکستان اور کرپشن اکٹھے نہیں چل سکتے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''پاکستان اور کرپشن اکٹھے نہیں چل سکتے‘‘ اس لیے دونوں کو آپس میں 6 فٹ کا فاصلہ رکھنا ہوگا اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی پرہیز کرنا ہوگا، بغل گیر ہونا تو دونوں کے لیے سخت مضر ہے۔ اس لیے دونوں کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر فاصلہ طے کرنا ہوگا کیونکہ کرپشن اگر ختم ہو گئی تو حکومت کا یہ نعرہ ہی بیکار ہو جائے گا جسے ختم کرنے کے لیے وہ اقتدار میں آئی تھی، تاہم حکومت کا اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوگا کیونکہ کچھ ساتھی اندر خانے اس سلسلے میں بھی ہاتھ پائوں مار رہے ہیں جنہیں کئی بار تنبیہ کی جا چکی ہے کیونکہ حکومت اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
چودھری شجاعت نے کہا تھا مارچ تک
تبدیلی آئے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''چودھری شجاعت نے کہا تھا مارچ تک تبدیلی آئے گی‘‘ غالباً ان کی مراد اگلے سال کے مارچ سے تھی، تاہم خاکسار کو اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ مارچ تک آرام سے سانس لینے اور اپنی خوراک وغیرہ کی طرف توجہ دینے کا موقع مل گیا ورنہ اب تک میرے اندرونی معاملات کافی حد تک دگرگوں ہو چکے ہوتے، تاہم اُن سے یہ وضاحت طلب کرنا ضروری ہو گیاہے کہ مارچ سے ان کی مراد کون سا مارچ تھا کیونکہ سرِدست تو تبدیلی یہ آئی ہے کہ مجھے ایک اور اے پی سی کے لیے تگ و دو کرنا پڑ گئی جس کے لیے اگر کوئی راضی ہوتا ہے تو دوسرے دن مُکر بھی جاتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں سینیٹر رضا ربانی سے ملاقات کر رہے تھے۔
جس طرح کی کرپشن آج ہے، پاکستان
میں کبھی نہیں دیکھی: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''جس طرح کی کرپشن آج ہے، پاکستان میں کبھی نہیں دیکھی‘‘ جو کہ آج بزدلوں کی طرح چھپ چھپ کر اور بچ بچا کر کی جا رہی ہے، جبکہ ہمارے دور میں اس طرح کی بزدلی کی کوئی مثال نہیں ملتی اور پورے دھڑلّے سے اور ڈنکے کی چوٹ پر کی جاتی تھی کیونکہ یا تو آدمی کرپشن نہ کرے اور اگر کرے تو پوری دلیری سے اور سب کے سامنے کرے جبکہ ہمارے قائد کے بقول تیز رفتار ترقی کرپشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لیے صرف ملکی ترقی کے لیے یہ کام کیا جا رہا تھا جبکہ ترقی تو نہیں ہو سکی البتہ کرپشن بے مثال ہوئی کیونکہ ایک وقت میں سلیقے سے ایک ہی کام کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
ضرورت نہیں
ایک لڑکا کسی کے باغ میں آم کے درخت پر چڑھا آم چُرا رہا تھا کہ باغ کا مالک بھی آ گیا اور بولا: نیچے اترتے ہو یا تمہارے باپ کو بلائوں؟ انہیں بلانے کی ضرورت نہیں: لڑنے نے کہا۔ کیوں؟ باغ کے مالک نے پوچھا۔
اس لیے کہ وہ ساتھ والے درخت پر چڑھے ہوئے ہیں۔ لڑکے نے جواب دیا۔
دوسرا سوال
فٹ پاتھ پر ایک نجومی اپنی دُکان سجائے بیٹھا تھا جس نے ایک سلیٹ پر یہ بھی لکھ رکھا تھا کہ پچاس روپے دے کر دو سوال پوچھ سکتے ہیں۔ ایک آدمی نے پچاس روپے دیتے ہوئے کہا: دو سوالوں کے پچاس روپے، زیادہ فیس نہیں؟کوئی زیادہ نہیں، دوسرا سوال پوچھو! نجومی نے جواب دیا۔
سمجھ
ایک شخص نے اپنے طوطے کا پنجرہ باہر گلی میں لٹکا رکھا تھا۔ ایک آدمی جب وہاں سے گزرتا تو طوطا کہتا کہ منحوس ، پھر آ گئے ہو؟ اس آدمی نے طوطے کے مالک سے شکایت کی کہ میں جب بھی گزرتا ہوں، آپ کا طوطا مجھے گالیاں دیتا ہے۔
مالک نے معذرت کی اور کہا کہ میں اسے سمجھا دوں گا، وہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔
دوسرے دن وہ آدمی وہاں سے گزرا تو طوطے نے زور سے قہقہہ لگایا۔ کیا کہا؟ اس آدمی نے واپس مرتے ہوئے پوچھا۔تم سمجھ تو گئے ہوگے۔ طوطا بولا۔
چھیڑا کیوں تھا؟
ایک آدمی اپنے طوطے کے ساتھ ہوائی جہاز میں سفر کر رہا تھا۔ جب ایئرہوسٹس اس کے پاس سے گزری تو طوطے نے اسے چھیڑا جس پر وہ مسکرائی ۔ جب وہ پھر گزری تو طوطے کے مالک نے بھی ایئر ہوسٹس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی، خاتون نے اپنے پائلٹ سے شکایت کی جو بیحد سخت مزاج تھا، اس نے حکم دیا کہ جہاز کا دروازہ کھول کر دونوں کو باہر پھینک دو۔ جب دروازہ کھولا گیا تو طوطے نے اپنے مالک سے پوچھا۔ تمہیں اُڑنا آتا ہے؟
مالک نے جواب دیا: نہیں، تو طوطا بولا: پھر چھیڑا کیوں تھا؟
بولنے والا طوطا
ایک شخص طوطا خریدنے کے لیے طوطوں کی دُکان پر گیا اور ایک طوطا پسند کیا۔ قیمت پوچھی تو دکاندار نے کہا کہ میں اس کی نیلامی کرتا ہوں‘ اس میں آپ بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ نیلامی شروع ہوئی تو عقب سے پیسے بڑھانے کی آواز آتی رہی۔ طوطا کافی مہنگا رہا لیکن اُس آدمی نے خرید لیا اور دکاندار سے پوچھا: کیا یہ باتیں بھی کرتا ہے؟ تو دکاندار بولا: پیچھے سے بولی یہی تو بڑھا رہا تھا!
گاڑی کیا چیز ہے؟
ایک صاحب سڑک کے عین درمیان میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کہا: جناب! آپ سڑک کے درمیان میں لیٹے ہوئے ہیں، ابھی کوئی گاڑی گزری تو آپ کو کچل دے گی، جس پر وہ صاحب بولے: ابھی ایک ہوائی جہاز میرے اوپر سے گزرا ہے اور مجھے کچھ نہیں ہوا، گاڑی کیا چیز ہے؟
اور، اب آخر میں شکیلہ جبیں کی کتاب ''رب کھیڈاں کھیڈدا‘‘ میں سے یہ نظم:
ایہہ دھرتی نِکی کاکی
ایہہ دھرتی نِکی کاکی
میں جوڑاں ٹاکی ٹاکی
سَت رنگ چڑھاواں آپی
ایہدے گل میں لیڑے پاواں
کاکی دے لاڈ لڈاواں
سر پریت دا پاواں تیل
سبھ رَلیئے ہووے میل
جگ ویکھے ساڈا کھیل
پھڑ کنگھی بودا واواں
کاکی دے لاڈ لڈاواں
میں ہو کے ہنجو ڈولھاں
میں چت کلیجی گھولاں
ہے ایہدے لئی میں بولاں
ہتھ پشماں مہندی لاواں
کاکی دے لاڈ لڈاواں
ایہدے پیریں کُولی جُتی
کوئی جاگ پوّے نہ سُتی
مَت ہو جان کُتو کُتی
میں پیتاں پُھل گنڈاواں
کاکی دے لاڈ لڈاواں
میں آنکھاں بن سیانی
نہ وڈی ہووے رانی
نہ سِر توں لنگھے پانی
ایہنوں گودی رکھ کھڈاواں
کاکی دے لاڈ لڈاواں
آج کا مطلع
یہ جو تیرے پاس ہونے کا ہمارا خواب ہے
سر بسر اک وہم ہے سارے کا سارا خواب ہے