عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے، شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے‘‘ کیونکہ موسم ہی اس قدر خراب ہے، یا تو گرمی نے مت ماری ہوئی ہے یا ایک دم بارش ہونے لگتی ہے۔ اس لیے فی الحال وہ کہیں نہیں جائیں گے اور موسم کے معتدل ہونے کا انتظار کریں گے، اس لیے جو لوگ چاہتے ہیں کہ وہ چلے جائیں انہیں غیر یقینی موسمی صورت حال کا اندازہ کر لینا چاہیے حتیٰ کہ ایک بار وہ گھر سے نکلے ہی تھے کہ تھوڑی دیر بعد تیز آندھی چلنا شروع ہو گئی اور وہ اس خوف سے رُک گئے کہ کہیں وہ انہیں بھی ساتھ اڑا نہ لے جائے۔ وہ گھر واپس آ گئے حالانکہ گھر میں ان کا جی بالکل نہیں لگتا اور وہ جانے کے بہانے سوچتے رہتے ہیں جبکہ گھر خود بھی اُن سے کافی اوازار ہے اور چاہتا ہے کہ وہ کہیں چلے ہی جائیں تو اچھا ہے، تاہم وہ کسی موقع کی تلاش میں ہیں کہ پہلی فرصت ہی میں کہیں چلے جائیں اور جب اللہ کو منظور ہوگا وہ اپنے جانے کے منتظر لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے کوئی دیر نہیں لگائیں گے اور دنیا دیکھے گی کہ وہ بالآخر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
پائلٹ نہیں، حکومت اور وزیر جعلی ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پائلٹ نہیں، حکومت، وزیراعظم اور وزیر جعلی ہیں‘‘ کیونکہ اگر پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں توباقی سب کی ڈگریاں کون سی اصلی ہیں اور ہم نے اپنے ادوار میں پی آئی اے میں جو زائد بھرتیاں کی تھیں اب برخاستگی کے ڈر سے وہ ہم سے اس حق الخدمت کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو انہوں نے برضا و رغبت پیش کیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی بھی ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہے اور معاشی کساد بازاری کے اس عالم میں دونوں پارٹیاں یہ چوٹ برداشت کرنے کے ہرگز قابل نہیں ہیں جبکہ ہمارا تو کچھ زیادہ ہی بُرا حال ہے کیونکہ ہم تو خاصی معقول واپسی بھی کر چکے اور اب بقایا کی واپسی ہمیں ایک پہاڑ کی طرح نظر آ رہی ہے اور ہم سے تو زرداری صاحب ہی اچھے رہے جو اب تک ٹال مٹول سے کام لے کر گزر اوقات کر رہے ہیں اور اگر بھائی صاحب کو باہر جانے کا مسئلہ در پیش نہ ہوتا تو ہم بھی اتنی پھرتی نہ دکھاتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میری پریس کانفرنس کاپی ٹی آئی نے
کوئی جواب نہیں دیا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''میری پریس کانفرنس کا پی ٹی آئی نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘ جبکہ پریس کانفرنس بھی مفت میں نہیں ہو جاتی اور اس پر خرچہ بھی بہت آتا ہے کہ دیگر لوازمات کے ساتھ ساتھ پریس کانفرنس میں آنے والے احباب کو نہ صرف کھانا کھلانا پڑتا ہے بلکہ کئی ایک افراد کو آنے جانے کا خرچہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے، اور اگر حکومت کا طریقہ یہی رہا تو مجھے پریس کانفرنسوں کا یہ مذاق ختم کرنا پڑے گا کیونکہ خرچے پہلے ہی بے انداز ہو رہے ہیں اور ابھی واپسی کا بہت بڑا خرچہ تو سر پر کھڑا ہے اور جس کے ذمہ دار صرف نواز شریف ہیں جنہوں نے نہایت بے اصولی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپسی کا ایک غلط رواج ڈال دیا اور اب شریف آدمیوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے جس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی کو اس کے خون پسینے کی کمائی سے اس بیدردی کے ساتھ محروم کر دیا جائے اور چونکہ اگلی باری ان شاء اللہ ہماری ہے اس لیے اٹھارہویں ترمیم کی طرح ایک مؤثر ترمیم پاس کروائیں گے، تا کہ ملک کے شہریوں کو اُن کی نیک کمائی سے اس طرح محروم کرنے والوں کو اس کی سزا دی جا سکے، اوّل تو ان شاء اللہ ہم کوئی چیز اپنے خلاف ثابت ہی ہونے نہیں دیں گے تا کہ ایسی بے جواز واپسیوں کا ہمیشہ کے لیے تدارک ہو سکے اور ہر شہری کو معاشی تحفظ حاصل رہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
کارونا کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''کارونا کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘‘ بلکہ سچ پوچھیے تو شروع ہوئی ہے کیونکہ پہلے تو ہم لاک ڈائون کی مختلف قسموں کو ہی آزماتے رہے ہیں لیکن جب کوئی تجربہ کامیاب نہیں ہوا تو ہم نے سوچا ہے کہ اب اس کے خلاف انھّے واہ قسم کی جنگ شروع کر دی جائے کیونکہ اندھے کی لاٹھی کے آگے تو کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا، کارونا کیا چیز ہے اور اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص یا چیز ہمیشہ کے لیے غیر مفید نہیں رہ سکتی اور آخر کار ان سے استفادے کی کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آتی ہے اور اس سے حکومت کی روزگار پالیسی کے لیے بھی کافی سہولت پیدا ہوگی چنانچہ پہلی فرصت میں ایک مفصل سروے کر دیا جائے تا کہ ملکِ عزیز میں نابینا حضرات کی صحیح تعداد معلوم ہو سکے اور اس کی روشنی میں اس انتہائی مفید ترکیب پر عملدرآمد کر کے کارونا کا قلع قمع کیا جا سکے اور خاکسار کو بھی ایک اور مسئلے سے سرخرو ہونے کا موقع میسر آ سکے جس کا میں کافی دیر سے منتظر چلا آ رہا ہوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
تجھ سے بیزار بھی ہو سکتا ہوں
کچھ سمجھدار بھی ہو سکتا ہوں
ابھی تعمیر کیا ہے خود کو
ابھی مسمار بھی ہو سکتا ہوں
ہے جو رُک رُک کے یہ ہونا میرا
میں لگاتار بھی ہو سکتا ہوں
میرا اثبات کیا ہے سب نے
اپنا انکار بھی ہو سکتا ہوں
جستجو چھوڑ چکا ہوں، لیکن
خود سے دو چار بھی ہو سکتا ہوں
یوں تو بے کار ہی کب سے ہوں پڑا
قابلِ کار بھی ہو سکتا ہوں
بات جس کا نہیں کوئی مطلب
اُس کا اظہار بھی ہو سکتا ہوں
کہیں سے کوئی خریدار تو آئے
حسنِ بازار بھی ہو سکتا ہوں
خود جو دریا کی رکاوٹ ہوں‘ ظفرؔ
ایک دن پار بھی ہو سکتا ہوں
آج کا مقطع
زبان کو سر پہ اٹھائے بھی ہم پھرے ہیں‘ ظفرؔ
سخن کیا ہے زبان پر سوار ہو کر بھی