حکومت نے غیر آئینی اقدام کیا تو تحریک چلائیں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت نے غیر آئینی اقدام کیا تو تحریک چلائیں گے‘‘ اگرچہ اب تک حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریکوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے جن کا آغاز مولانا فضل الرحمن نے کیا تھا اور جن میں ہم نے بھی شرکت کر کے محض اپنا وقت ضائع کیا تھا حالانکہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ بعض لوگوں کی سبز قدمی کی وجہ سے کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی‘ جس میں کسی قدر ہماری اپنی سبز قدمی بھی شامل تھی تاہم چونکہ ہمارے پاس وقت کافی مقدار میں موجود ہے اس لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے بہتر ہے کہ ٹائم پاس کرنے کی کوئی سبیل کی جائے کیونکہ جہاں تک کام کا تعلق ہے تو وہ فرنٹ مین حضرات کے ذریعے اپنے آپ ہی ہو رہا ہے جبکہ احتساب کا ادارہ اپنا کام کر رہا ہے اور ہم اپنا کیونکہ سب کو اپنا اپنا ہی کام کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ کے ذریعے بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت پر مشکل‘ حکومت کی اپنی وجہ سے ہے: فواد چودھری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''حکومت پر مشکل وقت حکومت کی اپنی وجہ سے ہے‘‘ کہ کسی حکومت کا ہونا بجائے خود ایک مشکل کی گھڑی ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ طول پکڑتی جاتی ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ کچھ عرصہ حکومت سے الگ ہو کر بھی دیکھ لے۔ اگرچہ بعض اوقات جب حکومت کچھ نہیں کر رہی ہوتی تو پھر بھی وہ کچھ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ کام اس وقت کچھ اور طبقے کر رہے ہوتے ہیں اور حکومت سمجھتی ہے کہ کام وہ خود کر رہی ہے۔ تاہم حکومت کو چاہیے کہ مشکل وقت کو مشکل سمجھنا چھوڑ دے اور اپنی ہر حالت میں مست رہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میڈیا کا گلا دبانا حکومت کا ہتھکنڈا ہے: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''میڈیا کا گلا دبانا حکومت کا ہتھکنڈا ہے‘‘ اور یہ ہر حکومت کی مجبوری ہوتی ہے کہ اس کے بغیر اس کا کام چل ہی نہیں سکتا جبکہ حکومتوں کو کچھ الٹے سیدھے کام بھی کرنا پڑتے ہیں جن میں سیدھے کم ہوتے ہیں اور الٹے زیادہ، اور میڈیا اپنے فرائض کی ادائیگی سے باز نہیں آتا حالانکہ اسے اپنے کام ہی سے کام رکھنا چاہیے جبکہ حکومتوں نے کبھی میڈیا کے کام میں دخل نہیں دیا، ماسوائے کبھی کبھار تھوڑا بہت گلا دبانے کے جبکہ گلا دبانا ویسے بھی ایک مقبول محاورہ ہے اور محاورے اسی لیے ہوتے ہیں کہ ان پر عمل بھی کیا جائے۔ اس لیے حکومتیں حسبِ توفیق ایسے اقدامات کرتی رہتی ہیں جس سے ان کی عاقبت اور میڈیا کی طبیعت درست ہوتی رہتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن اے پی سی بلائے یا سازشی
سیاست کرے، کچھ حاصل نہ ہوگا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن اے پی سی بلائے یا سازشی سیاست کرے، کچھ حاصل نہ ہوگا‘‘ جس طرح میرے جانے کی افواہیں اُڑا اُڑا کر اسے کچھ حاصل نہیں ہوا اور ہر بار اس نے مُنہ کی کھائی، اگرچہ یہ محاورہ قدرے مشکوک سا ہے کیونکہ مُنہ سے کھایا جاتا ہے، منہ کی کھانا ویسے بھی نا ممکن ہے، چنانچہ غلط محاورے لغت سے ہٹا دینے چاہئیں کہ ان سے زبان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ہمیں اپنی قومی زبان کی حفاظت کرنی چاہیے ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی‘ اگرچہ ہمارے زیادہ تر کام ایسے ہی ہیں کہ آنے والی نسلوں کو معاف کرنا نا ممکن ہوگا بلکہ ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ یہ نسلیں شاید آنے ہی سے انکار کر دیں اور ہم اُن کا انتظار ہی کرتے رہیں لیکن اگر واقعی نہ آئیں تو ہمارے کارنامے کون دیکھے گا ؟آپ اگلے روز لاہور میں رکن قومی اسمبلی ریاض احمد فتیانہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
کنارشی
یہ ہمارے سینئر اور ممتاز شاعر جمیل الرحمن کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے اکادمی بازیافت کراچی نے شائع کیا ہے۔ انتساب ''اپنی خُلد آشیانی خالہ جان امت المنان نجمہ ظفر کے نام ہے جن کی مادرانہ آغوش میں میرا بچپن الف لیلوی کہانیاں سنتے گزرا‘‘۔ یہ کتاب اُن کے برادرِ خورد عزیز محمد وقیع الرحمن عقیل کی مالی معاونت سے شائع ہوئی ہے۔ ''میری نظمیں‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ شاعر کا بقلم خود ہے جبکہ انگریزی میں دیباچہ نینا رحمن نے لکھا ہے جو ایک صفحے پر مشتمل ہے۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر شائع کی گئی ہے جبکہ اندرونِ سرورق اردو میں تحسینی رائے اور انگریزی میں ایک مضمون سے اقتباس شائع کیا گیا اور دوسرے اندرونی سرورق پر شاعر کا مختصر تعارف اور ان کی تصانیف کی فہرست شائع کی گئی ہے۔ یہ شاعر کا گیارہواں مجموعۂ کلام ہے۔ جمیل الرحمن نظم گوئی میں اپنا ایک مقام اور پہچان رکھتے ہیں اور ملک کے اہم نظم گوئوں میں شمار ہوتے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو نظم کا وقار بڑھانے میں ان کا اپنا حصہ ہے۔
اور‘ اب آخر میں علی ارمان کی یہ غزل:
ہر ایک رنگ سے یوں ماورا ہوا ہے فقیر
کہ سر میں ڈال کے مٹی ہرا ہوا ہے فقیر
رئویں رئویں میں رواں ہے کسی چراغ کی یاد
وہ جس کی لو سے لبا لب بھرا ہوا ہے فقیر
نہ کچلی جائے کوئی سبز گھاس کی پتّی
زمیں پہ چلتے ہوئے بھی ڈرا ہوا ہے فقیر
جو مجھ کو مارنے آئے‘ کوئی بتائے اُسے
کہ زندہ ہو کے بھی کب سے مرا ہوا ہے فقیر
جہاں محل ہوا کرتا تھا اس کا‘ اب وہاں پر
کٹورا بھیک کا بن کر دھرا ہوا ہے فقیر
درونِ دل نہیں اب کچھ بھی‘ بیدلی بھی نہیں
کمالِ فقر پہ بے ماجرا ہوا ہے فقیر
یہ کائنات اسے لگ رہی ہے اک سُر میں
جب اُس کی تال کا اک ماترا ہوا ہے فقیر
ہے بے کنار سمندر کوئی خموشی کا
کہ جس کی موج میں نغمہ سرا ہوا ہے فقیر
طلائے خاص سے بنتا نہیں کوئی زیور
ملا کے کھوٹ کو خود میں کھرا ہوا ہے فقیر
چڑھانے کے لیے اپنے مزار پر ارمانؔ
سفید پھولوں کا اک ٹوکرا ہوا ہے فقیر
آج کا مطلع
یوں بھی نہیں کہ میرے بلانے سے آ گیا
جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آ گیا