یہ ملکی تاریخ کی سب سے ذمہ دار اپوزیشن ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''یہ ملکی تاریخ کی سب سے ذمہ دار اپوزیشن ہے‘‘ اسی لیے ملک میں جب بھی کوئی نیا بحران سر اٹھاتا ہے اسے بجا طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ملک میں اپوزیشن کمزور ہے یا اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ گزشتہ سب کے سب بحران بھی اسی کے کریڈٹ پر ہیں اگرچہ یہی اپوزیشن اس وقت حکومت میں ہوا کرتی تھی چنانچہ گاہے گاہے اپوزیشن اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے جبکہ اس کی دوسری ذمہ دارانہ حرکت یہ ہے کہ یہ وقتاً فوقتاً اے پی سی بھی بلواتی رہتی ہے جہاں نہایت ذمہ داری کے ساتھ مولاناکو آگے کر دیا جاتا ہے جواپو زیشن کے تئیں اسی کام جوگے رہ گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کر رہے تھے۔
خواجہ آصف رنگ میں بھنگ ڈال رہے ہیں: شاہ محمود قریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''خواجہ آصف رنگ میں بھنگ ڈال رہے ہیں‘‘ حالانکہ صرف بھنگ میں رنگ ڈالا جاتا ہے اگرچہ وہ پہلے ہی خاصی رنگدار ہوتی ہے اور اسے مزید کسی رنگ کی ضرورت نہیں ہوتی چنانچہ حکومت جب بھی کوئی رنگبازی کرتی ہے اپوزیشن اس میں بھنگ ڈالنے کے لیے گویا تیار ہی بیٹھی ہوتی ہے اور اپوزیشن کے جملہ معززین کے ہاتھوں میں بھنگ کی ایک ایک پڑیا ہوتی ہے جو ہمارے رنگ میں ڈالنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے۔آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
کلبھوشن کو پھانسی دینے والی رسّی
سے کیا کام لیا جائے گا: پرویز رشید
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''کلبھوشن کو پھانسی دینے والی رسّی سے کیا کام لیا جائے گا‘‘ اور اس کام کے لیے ہمارے قائد سے مشورہ ضرور لیا جائے جو ہزارہا مطالبوں کے باوجود اس کا نام تک اپنی زبان پر نہیں لائے۔ اس لیے اس کا سب سے بہتر استعمال تو یہ ہے کہ اپوزیشن اس کی ادوائن بنا کر اپنی منجی کو کس لے کہ کب تک اس ڈھیلی چارپائی پر بیٹھی رہے گی جبکہ ایسا بھی لگتا ہے کہ اپوزیشن کی رسی ویسے بھی دراز ہے اور یہ رسی ایسی ہے کہ جلنے پر بھی اس کا بل نہیں جاتا جبکہ اس رسی سے کلبھوشن کو پھانسی دینے سے ہمارے قائد کے دوست نریندر مودی کو بے پناہ صدمہ پہنچے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں اسمبلی میں شمولیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کسی کو عوامی مفادپر ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''کسی کو عوامی مفادپر ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے‘‘ کیونکہ عوامی مفاد اب رہ ہی کون سا گیا ہے، کہ سارے کا سارا تو کورونا وائرس نے تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ اس وائرس کے سلسلہ میں جو اُلٹے سیدھے تجربات کیے گئے ان سے اسے زیادہ پھیلنے کا موقع ملا‘ اس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ کوئی تجربہ کرنے سے حتیٰ الامکاں گریز کیا جائے گا اور کم از کم عوامی مفاد ہی کا کچھ خیال رکھا جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار سے ملاقات کر رہے تھے۔
کراچی کے عوام کو مشکل صورتحال
میں تنہا نہیں چھوڑیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''کراچی کے عوام کو مشکل صورتحال میں تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ کیونکہ ہم نے پنجاب کے عوام کو بھی ان کی حالت پر تنہا نہیں چھوڑا ہے، کراچی کے عوام کو بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے، ویسے بھی ملک بھر کے عوام کو ایک ہی صورتحال میں رکھنا بے حد ضروری ہے جس سے مساوات کا تاثر ابھرتا ہے اور کسی پر کسی کی فوقیت باقی نہیں رہتی اور ان کی مزاج پُرسی بھی ایک ہی طرح سے ہوتی رہنی چاہیے کیونکہ ہم امتیازی پالیسی کے قائل نہیں ۔ آپ اگلے روز کراچی میں گورنر سندھ اور وزرا سے ملاقات کر رہے تھے۔
مکھی
چند فلسفی ایک جگہ معمول کے غور و خوض میں مصروف تھے کہ ایک مکھی ایک فلسفی کے ناک پر بار بار آ کر بیٹھ جاتی۔ آخر تنگ آ کر انہوں نے مکھی مار اٹھایا تا کہ اس کو مزا چکھا سکیں۔ وہ مارنے لگتے تو مکھی اس جگہ سے اڑ کر کسی اور جگہ جا بیٹھتی۔ آخر موصوف نے کارنس پر بیٹھے ہوئے اسے جا لیا۔ لیکن اسے مارنے کے لیے مکھی مار چلانے سے باز آ گئے اور واپس آ کر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھیوں نے جب پوچھا کہ مکھی کو مارا کیوں نہیں، تو وہ بولے۔ ''یہ وہ مکھی نہیں تھی!‘‘
قوتِ سماعت
ایک طالب علم لیبارٹری میں بیٹھا مکھی پر تجربہ کر رہا تھا۔ اس نے ایک مکھی کے پر نوچے اور اسے ایک نلکی میں ڈال کر حکم دیا کہ اُڑ۔ جب وہ نہ اُڑی تو اس نے دوبارہ اسے اُڑنے کا حکم دیا۔ جب متعدد بار اس کے کہنے کے باوجود مکھی نہ اُڑی تو اس نے اپنے نتیجے میں لکھا: جب مکھی کے پر نوچ لیے جائیں تو وہ قوتِ سماعت سے محروم ہو جاتی ہے۔
اور اب آخر میں رخشندہ نوید کے مجموعۂ کلام ''حالی آٹا وسمیا ناہیں‘‘ میں سے یہ نظم:
کھٹیا وٹیا
بابا جی
بابا جی کوئی نسخہ دسو
دور دے پنڈوں ٹُردی ٹُردی
آئی جے
کُجھ کرن دا کوئی سواد نہیں
جو کھٹیا وٹیا کھوہ دے اندر سُٹ بیٹھی
ہُن کسے وی پل آرام نہیں
مرا گھر کوئی، کوئی نام نہیں
کوئی نسخہ دسو بابا جی
میرے گل بنھو کوئی تویت
اک پُڑی دیو
تسی آکھو میں تسبیح دے دانے پھڑ کے ایتھے بیہہ جاواں
بن باس لواں
چِلّہ کٹاں
کوئی پھونک مارو
کُجھ دَب کے میرے آل دوال وی جایا کرو
بابا جی نے سِر چُک کے مرے مونہہ ول تکیا اک واری
تے ہولی جیہی اوہ ایناں آکھ کے ٹر گئے سن
''مرے بچو جی تُسی کسے دے کم
مشکل دے ویلے آیا کرو‘‘
تے سکھ تے چین ہنڈھایا کرو!
آج کا مطلع
بہت مصروف ہوں چھوٹا سا اک گھر بنانے میں
کہیں وہ بھی کسی دل کے بہت اندر بنانے میں