"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور آزاد حسین آزادؔ کی شاعری

کوئی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع 
ہونے سے نہیں روک سکتا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''کوئی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے سے نہیں روک سکتا‘‘ جس طرح ہم دونوں بھائیوں کی آزادی کا سورج طلوع ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا بلکہ بھائی صاحب کی آزادی کا تو سورج طلوع ہو کر نصف النہار تک پہنچ چکا ہے اسی طرح میرا سورج بس میرے کسی طرح لندن پہنچنے کا منتظر ہے جس کے لیے نئی میڈیکل رپورٹس تیار کروانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے تاہم سورج چونکہ طلوع ہو کر ڈوبتا بھی ہے اور یہاں کی عدالتوں سے بھائی صاحب کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں‘ اس لیے ان کی آزادی کے سورج کی صورتحال کافی ڈانواں ڈول نظر آ رہی ہے کہ کہیں غروب ہی نہ ہو جائے کہ یہ غروب ہونے کی بُری عادت کا پہلے ہی شکار ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بھارت بند گلی میں پھنس چکا ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''بھارت بند گلی میں پھنس چکا ہے‘‘ جس سے نکلنے کے لیے اسے واپسی ہی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ جب بھی کوئی حکومت بند گلی میں پھنستی ہے تو واپسی کے راستے ہی مشکلات سے نکلتی ہے جبکہ اتحادی حضرات نے ہمارے لیے بہت سی بند گلیاں بنوا رکھی ہیں جن میں وہ ہمیں آئے روز دھکیل دیتے ہیں۔ خدا انہیں نیکی کی ہدایت دے۔ ویسے ہمیں ڈرانے، دھمکانے کے بعد انہیں بھی کافی عقل آ گئی ہے اور وہ اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں کہ اس طرح وہ اپوزیشن ہی کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں جو پہلے ہی رعشے کا شکار ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پارلیمان کی بالادستی کے لیے
ہمارا عزم غیر متزلزل ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پارلیمان کی بالادستی کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے‘‘ کیونکہ ہمارا عزم ریڈی میڈ ہوتا ہے اور جب ہم اسے باندھتے ہیں تو وہ پہلے ہی غیر متزلزل ہوتا ہے اور ہمیں اس کے لیے کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑتا اور اب تک ہم نے جو کچھ کیا ہے اسی غیر متزلزل عزم کے ساتھ ہی کیا ہے جس کے لیے ہمیں اکثر اوقات غیر متزلزل پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے اور لگتا ہے کہ یہ اس کی اسی کیفیت کی وجہ سے ہے لیکن ہم اس سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ ساری لہر بہر اسی کے دم قدم سے ہے، اگرچہ یہ پریشانیاں بھی زیادہ تر غیر متزلزل ہی ہوتی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ادریس طوطی کی شہادت کے موقع پر گفتگو کر رہے تھے۔
بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا حساب دینا ہوگا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا حساب دینا ہوگا‘‘ جیسا کہ کئی حساب سب اندر خانے دیتے رہتے ہیں اور اسی مصروفیت کی وجہ سے عوامی مسائل حل کرنے میں بھی مشکلات در پیش رہتی ہیں لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری اور حساب دینے میں لگے رہتے ہیں کیونکہ عوامی مسائل تو کسی وقت بھی حل ہو سکتے ہیں بلکہ اکثر اوقات یہ خود ہی حل ہو جاتے ہیں اور کام آٹومیٹک انداز ہی میں ہوتا رہتا ہے۔ اسی لیے لوگوں نے اب ہم سے حساب مانگنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نقشے پر لکیریں لگانے سے کشمیر 
فتح نہیں ہوگا: طارق فضل چوہدری
نواز لیگ کے رہنما طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ ''نقشے پر لکیریں لگانے سے کشمیر فتح نہیں ہوگا‘‘ بلکہ بہتر ہے کہ اسے تقدیر پر چھوڑ دیا جائے جیسا کہ ہم نے اپنے ادوارِ حکومت میں چھوڑ رکھا تھا کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین رکھنے والوں میں سے ہیں، اسی لیے ہمارے قائد محترم نے بھی اس حوالے سے کبھی کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا اور دونوں بھائی اپنے کام میں پوری مستقل مزاجی سے لگے رہے کیونکہ ہم اپنی ترجیحات کے مطابق ہی کام کرتے ہیں ۔آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں آزاد حسین آزادؔ کی شاعری
اگر تعلق پہ برف ایسی جمی رہے گی
ہمیں تمہاری‘ تمہیں ہماری کمی رہے گی
سمے کا دھارا سفید رُوئی گرا رہا ہے
میں سوچتا ہوں وہ زلف کیا ریشمی رہے گی
ہمیں مکمل خوشی کبھی کیا نصیب ہو گی
ہماری قسمت میں ہلکی پھلکی غمی رہے گی
مرے لہو میں بغاوتوں کا رچائو سا ہے
مری ہمیشہ صلیب سے ہمدمی رہے گی
اے میرے بارش کے موسموں میں بچھڑنے والے
بتا ان آنکھوں میں کب تلک یوں نمی رہے گی
میں اپنے قدموں پہ اپنے دم سے کھڑا ہوا ہوں
ان آندھیوں کی تو یوں مجھ سے برہمی رہے گی
پکڑ کے رکھا ہوا ہے یہ ہاتھ تم نے جب سے
یہ سانس میری تھمی ہوئی ہے‘ تھمی رہے گی
......
چاروں طرف سے بند تھا پتھر کا آدمی
باہر کہاں سے جھانکتا اندر کا آدمی
کیسے ہو ختم نشہ تری نسبتوں کا یار
جائے کہاں اب اُٹھ کے ترے در کا آدمی
میرے تمام راز عدو جانتا ہے کیوں
کیا اس سے مل گیا ہے کوئی گھر کا آدمی
جیسے اسی کے پاس ہوں سب کارِ اختیار
اِترا رہا ہے خود پہ جو دم بھر کا آدمی
گرداب کر رہے تھے مرا ذکر بار بار
لہروں کو میں لگا تھا سمندر کا آدمی
آج کا مقطع
عبور کر کے ہی اِس کو بتا سکوں گا ظفرؔ
ابھی یہ کہہ نہیں سکتا ہوں کیا رکاوٹ ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں