"ZIC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل

عمران کسی کو این آر او نہیں دیں گے: فیصل جاوید
چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ ''عمران کسی کو این آر او نہیں دیں گے‘‘ کیونکہ کسی کو وہی چیز دی جاتی ہے جو اس کے پاس موجود ہو یا اسے اس کا اختیار ہو جبکہ یہاں کوئی بھی عنصر موجود نہیں ہے اور یہ بات اپوزیشن کو بھی اچھی طرح معلوم ہے اور یہ بات اتنی ہی بے معنی ہے جتنی یہ کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہے جبکہ یہ آج تک نہیں بتایا گیا کہ حکومت اپوزیشن سے کس چیز کا انتقام لے رہی ہے۔ اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی حکومت سے این آر او کی امید لگائے بیٹھی ہے اور حکومت خواہ مخواہ کا نخرہ دکھاتی رہتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف مکمل علاج کے بعد ہی واپس آئیں گے: خرم دستگیر
نواز لیگ کے مرکزی رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ''نواز شریف مکمل علاج کے بعد ہی واپس آئیں گے‘‘ کیونکہ جو علاج اتنے ماہ گزرنے کے باوجود اب تک شروع ہی نہیں کیا جا سکا، اس کے مکمل ہونے میں جتنا عرصہ درکار ہے اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے جبکہ وہ وہاں جتنا سیر سپاٹا کر رہے ہیں اور جو کھابے کھا رہے ہیں اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ علاج شروع کرنے سے پہلے اس کی مکمل تیاری کر لی جائے اور دوسری وجہ کورونا بھی ہے جس کے بارے میں تحقیق یہی کہتی ہے کہ یہ کم ہو سکتا ہے‘ ختم نہیں ہو سکتا، اس لیے واپسی کی خاطر انہیں کورونا کے خاتمے کا بھی انتظار کرنا پڑے گا اور اس کیلئے بھی اپنے معالج سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
35 سال تک ملک لوٹنے والے واجب القتل ہیں: غلام سرور
وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ ''35 سال تک ملک لوٹنے والے واجب القتل ہیں‘‘ کیونکہ اس طرح قوم کا بہت سارا قیمتی وقت بھی بچ جائے گا جو ان کے خلاف مقدمات کی سماعت میں ضائع ہوتا ہے اور کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلتا، لہٰذا اس سارے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس سے بہتر تجویز اور کوئی نہیں ہو سکتی اور دنیا یعنی دُکھوں کے اس گھر سے بھی انہیں نجات مل جائے گی، اس لیے صرف ایک فہرست بنانے کی ضرورت ہے جو بڑی آسانی سے بن سکتی ہے۔ آپ اگلے روز ٹیکسلا میں لیبر کمپلیکس کے دورے کے دوران میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اے پی سی کے لیے پیپلز پارٹی ہر جماعت
کے پاس جائے گی: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''اے پی سی کے لیے پیپلز پارٹی ہر جماعت کے پاس جائے گی‘‘ کیونکہ ہر جماعت اسے وقت کا ضیاع ہی سمجھتی ہے اور چونکہ پیپلز پارٹی خود بھی ایسا ہی سمجھتی ہے‘ اس لیے یہ پارٹی اپنے پاس بھی جائے گی جبکہ ساری جماعتیں یہ گھنٹی مولانا فضل الرحمن ہی کے گلے میں پہنانا چاہتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ان کے پاس کرنے کا کوئی کام بھی نہیں اور یہی وہ کام ہے جسے وہ بخوبی کر سکتے ہیں۔ کم از کم اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوگا کہ اپوزیشن کا حکومت کو گرانے کا واحد مقصد بھی سامنے آ جائے گا جو بصورتِ دیگر یقینی طور پر نا ممکن ہے لیکن اس کے علاوہ اپوزیشن کا کوئی اور مقصد بھی نظر ہی نہیں آتا جو نظر آنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
آلِ شریف نے قوم کو اربوں ڈالر کا ٹیکا لگایا: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''آلِ شریف نے قوم کو اربوں ڈالر کا ٹیکا لگایا‘‘ اور وہ بھی بغیر کسی تشخیص کے حالانکہ مرض کی حقیقت معلوم کیے بغیر کوئی ٹیکا لگا دینا بیماری میں اضافے کا باعث ہو سکتا ہے، اس طرح اس نے ایک فضول کام پر اربوں ڈالر خرچ کر ڈالے جبکہ اب اس غلط ٹیکے کی وجہ سے قوم کی بیماریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اربوں ڈالر خرچ کر دینا تو سمجھ میں آتا ہے، اس کا ٹیکہ لگا دینا ایک ایسی عجیب حرکت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ آپ اگلے روز شہباز شریف کی پریس کانفرنس پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
موٹرسائیکل
ایک اخباری رپورٹر کسی کام کے لیے پاگل خانے گیا جہاں اس نے دیکھا کہ بہت سے پاگل گھرررر، گھررر کرتے، موٹرسائیکل کی آوازیں نکالتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور پاس ہی ایک آدمی ایک طرف کھڑا تھا۔ اس کے پوچھنے پر رپورٹر نے اپنا تعارف کرایا اور پوچھا کہ یہ سب کیا کر رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا: انہیں تفریح کی غرض سے پندرہ منٹ کے لیے باہر نکالا گیا ہے اور موج مستی کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ رپورٹر وہاں سے دوبارہ گزرا تو وہاں سے پاگل تو جا چکے تھے، البتہ وہ آدمی وہیں موجود تھا۔ اس نے رپورٹر سے پوچھا کہ کیا وہ پیدل آیا ہے؟ تو اس نے ہاں میں جواب دیا، جس پر وہ شخص بولا: کیا آپ اتنی تیز دھوپ اور گرمی میں پیدل واپس جائیں گے؟ رپورٹر نے کہا کہ کوئی بات نہیں، میرا دفتر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اس پر وہ شخص بولا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آئیے میرے پیچھے بیٹھیں، گھرررر، گھرررر، گھررر۔۔۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے مسعود احمد کی غزل:
سسک سسک کے جو سسکاریاں نکلتی ہیں
بدن کی راکھ سے چنگاریاں نکلتی ہیں
میں اُن کو دیکھتا رہتا ہوں شام ڈھلنے تک
تمہارے گائوں کو جو لاریاں نکلتی ہیں
میں اپنی آخری سانسوں کا عین شاہد ہوں
تڑپ تڑپ کے یہ بیچاریاں نکلتی ہیں
وہی ہے امن کی تسبیح دانے دانے پر
پھر ایک جنگ کی تیاریاں نکلتی ہیں
زمیں پہ جیسے کوئی کہکشاں اترتی ہے
اکٹھے ہو کے وہ جب ساریاں نکلتی ہیں
وہ پنگھٹوں پہ سرِ شام پانی بھرنے کو
چمک دمک کے حسیں ناریاں نکلتی ہیں
وہ لہلاتی ہوئی کھیتیوں کو جاتی ہوئی
دھنک کے رنگوں میں پھلکاریاں نکلتی ہیں
یہ عشق‘ عشق ہے خاطر میں لا نہیں سکتا
وہ جتنی رستے میں دشواریاں نکلتی ہیں
کوئی بھی کام کہیں ڈھنگ سے نہیں ہوتا
قدم قدم پہ غلط کاریاں نکلتی ہیں
جنہوں نے پیڑوں سے دن رات استفادہ کیا
انہی کے ہاتھوں میں اب آریاں نکلتی ہیں
کہیں پہ کوئی بھی مجنوں نظر نہیں آتا
محبتیں بھی دکاں داریاں نکلتی ہیں
آج کا مطلع
مت سمجھو وہ چہرہ بھول گیا ہوں
آدھا یاد ہے‘ آدھا بھول گیا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں