حکومت کراچی کو پیکیج دے کر کوئی احسان نہیں کر رہی: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت کراچی کو پیکیج دے کر کوئی احسان نہیں کر رہی‘‘ بلکہ سچ پوچھیں تو ہم پر ظلم کر رہی ہے کیونکہ ہم نے بڑی مشکل اور تگ و دو کے بعد اسے اس حالت کو پہنچایا ہے کہ ہمیں یہ اسی حالت میں سوٹ کرتا ہے جبکہ اس کے منصوبوں پر خرچ ہونے کی بجائے ساراسرمایہ ضائع ہونے سے بچا لیا جاتا ہے اور اسے ملک کے اندر اور باہر محفوظ کر لیا جاتا ہے جس کے لیے مختلف عمالِ حکومت اور دیگر معززین دن رات کام کرتے ہیں اور حکومت احتساب ادارہ وغیرہ کے ذریعے ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہو جاتی ہے کہ کراچی دراصل ہمارے لیے روزگار کا مسئلہ بھی ہے اور حکومت ہمیں بے روزگار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
فیٹف قوانین پر ٹھپہ لگانے والے قومی مجرم ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''فیٹف قوانین پر ٹھپہ لگانے والے قومی مجرم ہیں‘‘ کیونکہ ٹھپہ نہ لگانے سے زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ ملک بلیک لسٹ میں چلا جائے گا اور جب تک ہم امید کی آخری کرن کے طور پر موجود ہیں ملک کو اندھیروں سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا کیونکہ ملک اصل بلیک لسٹ میں تو اس وقت جائے گا جب عاقبت نا اندیش عوام سے مایوس ہو کر ہم اپنی یہ امید کی آخری کرن واپس لے لیں گے اور اگر ملک دیوالیہ بھی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اگر شریف برادران اور آصف علی زرداری کو چھپڑ پھاڑ کر دولت مل سکتی ہے تو اس ملک کو کیوں نہیں جبکہ اس ملک کے رہائشی ہم بھی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
دعوے کرنے سے کوئی بڑا لیڈر نہیں بن جاتا: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد ِحزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''بلند بانگ دعوے کرنے سے کوئی بڑا لیڈر نہیں بن جاتا‘‘ جبکہ بڑا لیڈر بننے کے لیے ہماری طرح بلند بانگ خدمت بھی کرنا پڑتی ہے جو لندن کے فلیٹوں میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ہم صابر و شاکر لوگ ہیں اور صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے جس سے ہم لطف اندوزہو رہے ہیں۔ البتہ صبر کا یہ پھل کچھ ضرورت سے زیادہ ہی میٹھا ہو گیا تھا جس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ارکانِ اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن نے کرپشن بچانے کے لیے این آر او مانگا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن نے کرپشن بچانے کے لیے این آر او مانگا‘‘ حالانکہ اس کی انہیں ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ زیادہ تر کرپشن تو وہ پہلے ہی بچا چکے تھے جبکہ زداری ہوں یا شریف برادران، سارا پیسہ پہلے ہی ہضم کر چکے ہیں اور ہم ان پیسوں سے ابھی تک خالی ہاتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور نہ ہی آئندہ کوئی امید نظر آتی ہے جبکہ ان بیانات کی حیثیت بھی گیدڑ بھبھکیوں سے زیادہ نہیں ہے، اگرچہ ہم شیر ہیں‘ہمارے شیر ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اور ہمیں اس جنگل کا باقاعدہ بادشاہ بنا دیا گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ووٹ کو عزت دو
تحریک کو دبانے کی کوشش ہے: کیپٹن (ر) صفدر
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے کہا ہے کہ ''ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ووٹ کو عزت دو تحریک کو دبانے کی کوشش ہے‘‘ جبکہ ان کا ووٹر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ سارے ووٹر تو بریانی پر لگے ہوئے ہیں اور ایک ووٹ ہمیں ایک پلیٹ بریانی کا ہی پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کا ایک صحت مندانہ رویہ یہ بھی ہے کہ وہ کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں اور اس حقیقت افروز مقولے پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم اگر کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں جبکہ لگانے میں بھی کھانے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ یعنی چپڑی ہوئی اور دو دو۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پستول
ایک صاحب اپنی کار میں ہونیوالی ڈکیتی کی تفصیل پولیس کو بتا رہے تھے کہ پولیس افسر کی نظر ایک پستول پر پڑی جو گیئر کے پیچھے چھپایا گیا تھا۔لیکن آپ کے پاس تو یہ بھرا ہوا پستول بھی تھا، پولیس افسر نے کہا۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ڈاکوئوں کی اس پر نظر ہی نہیں پڑی اور یہ بچ گیا۔ وہ صاحب بولے۔
اور اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
سلویا پلاتھ کے لیے
ایسے منہ زور اندھیرے سے نمودار ہو کر
تم اب کیا دیکھتی ہو؟
جب ہر طرف راکھ اڑتی ہے
بے چینی سے جگہیں بدلتے ہوئے
تم کہاں جان پائیں
کہ بے پناہ دیوانگی کے لیے کچھ بھی کافی نہیں ہوتا
کانپتے ہونٹوں پر، ڈولتے پنچھی
کسی کو دکھائی نہیں دیتے
تہ خانے میں چھپ کر
خواب آور گولیاںکھا لینے سے
دنیا پیچھا کہاں چھوڑتی ہے
نہ ہڈیوں کو کاٹ دینے والی
یخ بستہ ہوائوں کو
پھول سے چہرے کی نیلاہٹ
گرم جوش بنا سکتی ہے
تاسّف سے تم دیکھتی رہیں
مہربان آنکھوں میں
اترتی ہوئی سفاک لاتعلقی
اور لا متناہی اضطراب میں
اپنے ہونے کو لکھتی رہی
کتاب کے نام سوچتے سوچتے
ابد تک۔۔۔ لو دیتا ہوا نشان بن گئیں
کاش تم جیتے چلے جانے پر خود کو آمادہ کر سکتیں
اور ہم ...کم از کم ایک مرتبہ
اس آسمان کے نیچے
ایک دوسرے کو دیکھ سکتے
درختوں کے درمیان
دھند اور مشترکہ نیند میں چلتے ہوئے
گھاس کی جڑوں میں
اتر جانے تک۔۔۔۔۔۔۔
آج کا مقطع
تخریب ہے بنیاد ظفر جس کی سراسر
ہونی تھی اُسی خاک سے تعمیر تمہاری