میرٹ کو فروغ دیا‘ ہر وعدہ پورا کریں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عوامی امور میں میرٹ کو فروغ دیا‘ عوام سے کیا ہر وعدہ پورا کریں گے‘‘ جبکہ افسروں کے تبادلوں میں بطورِ خاص میرٹ کا خیال رکھا گیا اور جس افسر کو تبدیل کیا گیا یا اس کا تبادلہ روکا گیا تو وہ معزز ارکانِ اسمبلی ہی کی سفارش پر کیا اور روکا گیا کیونکہ اگر ایک رکن اسمبلی تبادلہ کروائے تو دو ارکان یہ تبادلہ منسوخ بھی کروا لیتے تھے‘ یہی اصل جمہوریت ہے کہ اکثریت ہی کی رائے کو فوقیت حاصل ہو۔ جہاں تک ہر وعدہ پورا کرنے کا سوال ہے تو اس کا علم بھی وزیروں، مشیروں ہی کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ مجھے تو کسی بات کا پتا ہی نہیں اور میں نے پوچھے گئے ہر سوال کا بھی یہی جواب دیا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارکان اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
صرف الزامات کی بنا پر استعفیٰ نہیں دیا جا سکتا: فواد چوہدری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ''صرف الزامات کی بنا پر استعفیٰ نہیں دیا جا سکتا‘‘ اگرچہ کل میں نے کہا تھا کہ وضاحت کو کوئی نہیں مانے گا؛ تاہم میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں بھی نہیں مانوں گا بلکہ یہ بھی نہیں کہا تھا کہ اسے کوئی بھی نہیں مانے گا جبکہ ویسے بھی‘ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا کیونکہ یہاں ہر بیان کو پہلے توڑا، پھر مروڑا اور پھر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ صرف اسے توڑنا ہی کافی ہوتا ہے‘ مروڑنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی اور اگر مروڑنا ضروری ہو تو زیادہ سے زیادہ اس کے کان مروڑے جا سکتے ہیں، سارے کے سارے بیان کو مروڑنا محض وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مریم کی اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ نہیں ہو سکا: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کی اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ نہیں ہو سکا‘‘ کیونکہ شہباز شریف اور ان میں سے غالباً کسی ایک ہی کی شرکت کا فیصلہ ہونا تھا البتہ پارٹی میں کوئی اختلاف یا جھگڑا نہیں ہے اور اگر چند روز پہلے کے ایک واقعے کو سامنے رکھیں تو مریم نواز کی شرکت سنگ باری پر منتج ہو سکتی ہے کیونکہ ہم لوگ اپنی ضرورت کی اشیا ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، لٹھ بردار کارکنوں کے علاوہ۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی کے اہم رہنمائوں کے ایک اجلاس میں شریک تھے۔
کراچی کو سندھ حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سیّد شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''کراچی کے عوام کو سندھ حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے‘‘ بلکہ انہیں اپنے رحم و کرم کے تحت لائیں گے کہ آخر ہمارا رحم و کرم کس مرض کی دوا ہے۔ وفاق کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ ہر صوبے کے معاملے پر نظر رکھے اور بوقت ضرورت مدد کرے؛ البتہ تمام صوبوں کے معاملات میں اڑانے کے لیے ہم نے اپنی ٹانگیں مخصوص کر رکھی ہیں جن میں سے ہم وقتاً فوقتاً کام لیتے رہتے ہیں اور جس چیز کو استعمال نہ کیا جائے وہ پڑے پڑے ویسے ہی خراب اور ختم ہو جاتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کو حکمرانوں سے نجات کی جلد خوشخبری ملے گی: رانا تنویر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سینئر رہنما اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئر مین رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''عوام کو حکمرانوں سے نجات کی جلد خوشخبری ملے گی‘‘ کیونکہ ہم تو صرف خوش خبری ہی دے سکتے ہیں، اس کا پورا ہونا عوام یا خود خوش خبری پر منحصر ہے اور جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ عوام تھوڑی دیر کے لیے خوش ہو جائیں؛ اگرچہ وہ ایسی خوش خبریوں کی حقیقت کو پہلے ہی خوب جانتے ہیں لیکن ہم بھی کیا کریں، ہمارے پاس کرنے کو کچھ ہے بھی تو نہیں کیونکہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہم کامیاب نہیں کرا سکتے اور نہ ہی عوام کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں؛ تاہم اس طرح کے بیانات سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا کہ یہ ہمارا جمہوری حق بھی ہے اسی لیے ہم حتی الوسع اس جمہوری حق ہی کو استعمال کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ڈاکٹرز کی تجویز پر نواز چہل قدمی کرتے ہیں: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ڈاکٹرز کی تجویز پر نواز شریف چہل قدمی کرتے ہیں‘‘ اور سخت مشکل میں ہیں کیونکہ وہ تو لمبی دوڑ بھی لگا سکتے ہیں جبکہ چہل قدمی کی تو اب انہیں عادت ہی نہیں رہی اور یہ انہیں خلافِ طبع کرنا پڑتی ہے اور ہر صبح ڈنڈ بیٹھکیں لگا کر وہ اپنی صحت کو برقرار رکھتے ہیں، حتیٰ کہ کئی بار وہ اپنے ڈاکٹرز پر برہم بھی ہو چکے ہیں جو انہیں چہل قدمی پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی رپورٹس بھی تیار کرنا ہوتی ہیں جو انہیں پاکستان بھی روانہ کرنا ہوتی ہیں جبکہ چہل قدمی کے دوران بھی ان کی رفتار یہ ہوتی ہے کہ ان کے ساتھی بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کر رہی تھیں۔
ڈاکٹر
ایک صاحب مر کر عالم ِ بالا میں پہنچے، فرشتوں نے جب ان کا حساب کتاب دیکھا تو وہاں اُن کی موت کا کوئی اندراج ہی نہیں تھا جس پر انہیں بتایا گیا کہ تم نے تو ابھی مزید چھ ماہ زندہ رہنا تھا، وقت سے پہلے کیسے مر گئے؟ وہ بولے: بس‘ بیمار پڑا اور مر گیا۔ اچھا، یہ بتائو کہ تمہارا ڈاکٹر کون تھا؟ فرشتے نے سوال کیا۔
اور‘ اب آخر میں نبیل احمد نبیلؔ کی یہ غزل:
وقت بدلا نہ محبت کے ستارے بدلے
عشق کے کھیل میں کب اپنے خسارے بدلے
اس نے آنکھیں جو ذرا دیر کو پھیریں اپنی
رنگ سب روٹھ گئے اور نظارے بدلے
مدتوں بعد ملے ہو تو گماں ہوتا ہے
شکل و صورت نہیں تم سارے کے سارے بدلے
ایک پل بھی نہ میسر ہوئی راحت ہم کو
ایک لمحہ نہ کبھی بخت ہمارے بدلے
موجِ دریا نے ذرا مجھ کو اچھالا جو دیا
دیکھتے دیکھتے دریا کے کنارے بدلے
کون ہے‘ کس نے دکھائے ہیں سہانے سپنے
چُن لیا کس کو‘ بتائو یہ ہمارے بدلے
گردشِ وقت نے چھوڑا نہ کسی بھی صورت
ہم نے سو بار مگر سوچ کے دھارے بدلے
راستا یونہی نہیں چھوڑا جہاں والوں نے
زندگی ہار کے آیا ہوں تمہارے بدلے
ایک ذرا گردشِ حالات نے کیا دستک دی
دیکھتے دیکھتے سب جان سے پیارے بدلے
پیش آئی جو زمانے کی ضرورت مجھ کو
میں نے آواز لگائی تھی کہ سارے بدلے
زندگی کس کے سہارے پہ گزاریں گے نبیلؔ
مہرباں بدلے‘ سبھی اپنے سہارے بدلے
آج کا مطلع
ہمارا دل ابھی تک بے خبر ویسے کا ویسا ہے
بہت اجڑا بھی ہے لیکن یہ گھر ویسے کا ویسا ہے